نقود سے کیا مراد ہے؟
نقود سے مراد سونے اور چاندی، رائج الوقت سکّے اور آجکل استعمال ہونیوالے کاغذی پیسے ہیں۔
نقود سے کیا مراد ہے؟
نقود سے مراد سونے اور چاندی، رائج الوقت سکّے اور آجکل استعمال ہونیوالے کاغذی پیسے ہیں۔
نقود میں زكات واجب ہے کیونکہ اللہ فرماتے ہیں " اور وہ لوگ جو سونے اور چاندی کو ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں درد ناک عذاب کی خوشخبری سنا دو "
اور رسولؐ اللہ فرماتے ہیں "ہر وہ آدمی جو سونے اور چاندی کا مالک ہو اور زكات نہ دیتا ہو تو اسکے اس مال کو قیامت کے دن جہنّم کی آگ میں پگھلا کرتختے بنائے جائیں گے اور ان کے ذریعے اس کے دائیں، بائیں، پیشانی اور پیٹھ کو دن میں داغا جائے گا جو پچاس ہزار سال کے برابر ہو گا اور جب وہ ٹھنڈا ہو جائے گا تو پھر داغا جائے گا یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ ہو جائے گا اور جنّت یا جہنّم کا راستہ دکھا دیا جائیگا۔ "[ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]
1۔ ان پر سال کا گذرنا
2۔ ان پر ملکیت کا تام ہونا
3۔ نصاب کو پہنچنا۔
1۔ سونے کا نصاب 20 دینار ہے یعنی 85 گرام۔ اور سونے کا ایک دینار 4 گرام اور ایک چوتھائی ہوتا ہے تو سونے کا نصاب 25. 4× 20= 85گرام خالص سونا ہو گیا۔
2۔ چاندی کا نصاب 200 درھم یعنی 595 گرام ہے اور چاندی کا ایک درھم 2.975 گرام کا ہوتا ہے اور جب 2.975 کو 200 کے ساتھ ضرب دیتے ہیں 595 گرام بن جاتا ہے جو کہ خالص چاندی کا نصاب ہے۔
3۔ رائج الوقت سکے اور کاغذی پیسوں میں نصاب کا تعیّن سونے اور چاندی کے نصا ب کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ یعنی اگر ان کے ذریعے دونوں میں سے کسی ایک کے نصاب کو خریدا جا سکتا ہوا تو اس پر زكات واجب ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک گرام سونے کی قیمت 30 ڈالر ہو تو85×30=2550 ڈالر پہ زكات واجب ہے۔
سونا چاندی اور رائج الوقت سکے اور پیسوں میں عشر کا چوتھائی زكات واجب ہوتی ہے یعنی چالیسواں حصہ۔
پس ہر 20 سونے کے دینار پرآدھا دینار زكات دی جائے گی اور اسی ترتیب سے آگے چلیں گےزیادہ ہوں یا کم۔ اور ہر 20 درہم چاندی پہ 5 درھم زكات دی جائے گی اور جو زیادہ ہو گا اسکی زكات اسی ترتیب سے نکالیں گے۔
کیونکہ رسولؐ اللہ فرماتے ہیں "جب آپکے پاس 200 درہم ہو جائیں اور ان پر سال گذر جائے تو ان پہ پانچ درہم زكات واجب ہے اور سونے میں اس وقت تک آپ پر کچھ نہیں جب تک وہ 20 دینار کو نہ پہنچ جائے۔ اور جب 20 دینار کو پہنچ جائے اور اس پر سال بھی گذر جائے تو اس میں آدھا دینار زكات واجب ہے اور جو اس سے زیادہ ہو گا اس کی زكات اسی ترتیب سے ادا کی جائیگی۔ "[ اس حدیث کو امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے]
تطبیقی مثال ...
9000 ڈالر پر ایک آدمی کی ملکیت میں سال گذر گیا تو کیا اس پر زكات واجب ہے؟
پہلے ہم زكات کے نصاب کا حساب لگائیں گے سونے اور چاندی کے نصاب کی بنیاد پر جیسے کہ نیچے دیا گیا ہے۔
خالص سونے کا نصاب 85 گرام ہے۔
جس دن ان 9000 ڈالر کا سال پورا ہوا تھا تو ایک گرام خالص سونے کی قیمت 30 ڈالر تھی۔
85 کو 30 سے ضرب دینے سے 2550 ڈالر بنتےہیں۔ اگر کسی آدمی کے پاس اتنے ڈالر ہیں اور ان پر سال گذر گیا تو اس پر زكات واجب ہے۔اور اس آدمی کے پاس تو اس سے دو،تین گنا زیادہ ہیں۔ اس لیے اس پر زكات واجب ہے۔ پھر ہم اس زكات کی مقدار معلوم کریں گے جس کا نکالنا واجب ہے۔ زكات کی مقدار ہر 100 روپے میں 2.5 روپے ہے۔
جب 9000 کو 2.5 سے ضرب دے کر 100 سے تقسیم کریں گے تو 225 روپے یا ڈالر بنتے ہیں تو اس آدمی پر 225 ڈالر زكات نکالنا واجب ہو گی۔
سونے اور چاندی کا ایک دوسرے سے ملانا
جب کوئی آدمی سونے اور چاندی کا مالک بن جائے لیکن دونوں میں سے کوئی ایک بھی نصاب کی مقدار کو نہ پہنچتی ہو تو راجح یہ ہے کہ اس پر زكات نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سونے کی زكات علیحدہ سے نکالے گا اور چاندی کی علیحدہ سے۔
نصاب پورا کرنے کے لیے ایک کو دوسرے سے نہیں ملائے گا کیونکہ یہ دونوں مختلف جنسیں ہیں۔ اور نصاب پورا کرنے کے لیے ان دونوں یعنی سونا اور چاندی کو آپس میں ملانے پر کوئی دلیل بھی نہیں ہے۔ اور رسولؐ اللہ بھی فرماتے ہیں "کہ پانچ اوقیہ سے کم میں زكات نہیں ہے "[ یہ حدیث متفق علیہ ہے]
اور اگر کسی نے سونے اور چاندی کو جمع کر دیا تو ہر پانچ اوقیہ سے کم پر بھی زكات واجب ہو گی۔
زیورات کی دو قسمیں ہیں
- سونے اور چاندی کے زیورات
- اور ان کے علاوہ کے زیورات
پہلی قسم ان زیورات کی ہے جو ذخیرہ اندوزی کے لیےبنائے جاتے ہیں یا تجارت کی غرض سے بنائے جاتے ہیں تو ان پہ زكات واجب ہے۔
دوسری قسم ان زیورات کی ہے جو استعمال کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں تو احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے آپ کو بری الذمہ کرنے کے لیے زكات دے دی جائے۔
رسولؐ اللہ کے پاس ایک عورت آئی جسکے ساتھ اسکی بیٹی تھی جسکے ہاتھ میں سونے کے دو بھاری کنگن تھے تو رسولؐ اللہ نے اس سے پوچھا کیا آپ نے اسکی زكات دی ہے تو اس عورت نے جواب دیا کہ نہیں۔
تو رسولؐ اللہ نے فرمای" کیا آپ کو یہ پسند ہے کہ اللہ ان دونوں کو قیامت کےدن آگ کے کنگن میں تبدیل کر دے؟ راوی کہتا ہے یہ بات سنتے ہی اس عورت نے کنگن اتار دیے اور رسولؐ اللہ کے سامنے رکھ دیے اور کہا یہ دونوں اللہ اور اسکے رسول کےلیے ہیں "[ اس حدیث کو امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے]
یعنی اللہ کے راستے میں صدقہ کر دیے۔ اور بعض علماء کہتے ہیں کہ استعمال ہونیوالے زیورات میں زكات واجب نہیں ہے کیونکہ یہ وہ مال نہیں ہے جس میں زیادتی مقصود ہوتی ہے۔ بلکہ یہ تو شخصی مال و متاع میں سے ہے جس کو وہ استعمال کرتا ہے اور اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔
مثال کے طور پر کپڑے اور دوسرا مال و متاع جو شخصی ضروریات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اور یہ عورت کی زیب و زینت کی ضروریات میں سے بھی ہے اور زكات تو اس مال میں واجب ہوتی ہے جس میں زیادتی مقصود ہوتی ہے اور وہ زیادتی کے قابل بھی ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں تجارتی مال میں زكات واجب ہوتی ہے۔ ش
خصی ضروریات میں استعمال ہونے والے مال میں زكات واجب نہیں ہوتی۔ اور احتیاط اسی میں ہے کہ جو زیورات زیب و زینت کے لیے بنائے گئے ہوں ان میں زكات دے دینی چاہیے تاکہ انسان بری الذمہ ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کو حقوق میں سے کوئی حق اس کے ذمّہ نہ رہے۔
رسولؐ اللہ کے اس قول کی وجہ سے "چھوڑ دو ترک کر دو اس چیز کو جو شک میں ڈالے اس چیز کے لیے جو شک میں نہ ڈالے "[اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]
جیسے ہیرے، یاقوت اور موتی وغیرہ کے زیورات اگرچہ ان کی قیمت نصاب کو پہنچ جائے ان پہ زكات نہیں ہے۔ ہاں اگر ان کو تجارت کی غرض سے بنایا گیا ہو تو پھر یہ مال تجارت میں شامل ہوں گے اور ان پر زكات ہو گی جس طرح دوسرے مال تجارت میں ہوتی ہے۔