نجاست کے لغوی معنی
گندگی
نجاست کے لغوی معنی
گندگی
نجاست کی شرعی تعریف
وہ گندگی جس کا شریعت نے دور کرنے کو کہا ہے۔
حدیث اعرابی کی وجہ سے جو مسجد میں پیشاب کر رہا تھا آپ ﷺ نے فرمایا کہ" ان مساجد کے لیے پیشاب اور گندگی مناسب نہیں ہے بیشک یہ نماز اللہ کا ذکر اور تلاوت قرآن کے لیے ہیں"[یہ حدیث متفق علیہ ہے]
حیض کا خون بھی ناپاک ہے۔ حضرت خولہ بنت یساررضی اللہ عنہا آپ ﷺ کے پاس آئیں" اور کہا اے اللہ کے رسول ﷺ میرے پاس صرف ایک کپڑا ہے اور مجھے اس میں حیض آتا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا جب تم حیض سے پاک ہو جاؤ تو خون والی جگہ دھو لیا کرو اور اسی میں نماز پڑھ لیا کرو۔ "[اس حدیث کو امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے]
حرام جانوروں کی لید اور پیشاب بھی ناپاک ہے کیونکہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ" آپ ﷺ کو قضاء حاجت کی ضرورت پیش آئی تو آپ ﷺ نے مجھے تین پتھر لانے کو کہا، مجھے صرف دوپتھر ملے تیسرا تلاش کیا لیکن نہیں ملا تو میں لید اٹھا کر لے آیا۔ آپ ﷺ نے پتھر لے لیے اور لید پھینک دی اور فرمایا یہ گندگی ہے۔ "[یہ حدیث امام بخاری نے روایت کی ہے]
حلال جانور کی لید اور پیشاب پاک ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ مدینہ آئے اور بیمار ہو گئے تو آپ ﷺ نے انکو صدقے کے اونٹوں کی طرف بھیج دیا تاکہ وہ ان کے دودھ اور پیشاب میں سے کچھ پی لیں۔
مردار وہ ہے جو اپنی موت مرے اسکو شرعی طریقے پر ذبح نہ کیا گیا ہو ۔ اللہ رب العزت قرآن کریم میں فرماتے ہیں "آپ کہہ دیجیے کہ جو کچھ احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے ہیں ان میں تومیں کوئی حرام نہیں پاتا کسی کھانے والے کے لیے جو اس کو کھائے مگر یہ کہ وہ مردار ہو"
اور مردار میں وہ گوشت بھی شامل ہو گا جو ذبح سے پہلے جانور سے کاٹا جائے۔
کیکڑے اور مچھلی کو استثناء آپ ﷺ کی حدیث کی وجہ سے حاصل ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ"دو مردار اور خون ہمارے لیے حلال کیے گئے ہیں دو مردار کیکڑا اور مچھلی ہیں اور دو خون جگر اور تلی ہیں "[ اس حدیث کوامام احمد نے روایت کیا ہے]
آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ "اگر تم میں سے کسی کے برتن میں مکھی گر جائے تو اس کو پوری طرح ڈبو لو اور پھر پھینک دو کیونکہ اس کے ایک پر میں شفا ہے اور دوسرے میں بیماری۔ "[یہ حدیث امام بخاری نے روایت کی ہے]
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں " مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا کہ بہتا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت، کیونکہ یہ بالکل ناپاک ہے"
کتے کے لعاب کی ناپاکی دلیل آپ ﷺ کا یہ قول ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ "اگر تمہارے کسی برتن کو کُتا جھوٹا کر دے تو اسے سات مرتبہ دھو لو اور بہتر یہ ہے کہ مٹی کے ساتھ دھو لو"[یہ حدیث متفق علیہ ہے]
مذی وہ سفید پتلا اور لیس دار پانی ہے جو کہ اٹھکیلیاں کرنے سے اور جماع کے بارے میں سوچنے سے نکلتا ہے اور یہ شہوت اور جھٹکے سے نہیں نکلتا اور اس کے بعد سستی بھی نہیں آتی۔ اور بسا اوقات اس کے خروج کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ وہ ناپاک حضرت علی ابن ابی طالب کی حدیث کی وجہ سے ہے کہ جب انہوں نے مذی کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ "عضو تناسل دھو لواور وضو کرو" [ یہ حدیث متفق علیہ ہے]
ودی وہ سفید پانی ہے جو کہ گاڑھا ہوتا ہے اور پیشاب کے بعد نکلتا ہے۔
منی وہ سفید گاڑھا پانی ہے جو شہوت اور جھٹکے کے ساتھ نکلتا ہے اور اس کے بعد سستی بھی آ جاتی ہے۔ اس کی بو کھجور کی کلی کی طرح ہوتی ہےاور گندھے ہوئے آٹے سے بھی ملتی ہے۔ اور منی پاک ہے اگر ناپاک ہوتی تو آپ ﷺ اس کو دھونے کا حکم دیتے۔ اگر منی تر ہو گی تو یہ دھونے سے صاف کی جائے گی اور اگر خشک ہو گی تو صرف کھرچنے پر اکتفا کیا جائیگا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ" آپ ﷺ منی دھوتے تھے اور نماز کے لیے نکلتے تھے اور میں دھونے کا اثر ان کے کپڑوں پر دیکھتی تھی ۔ " [یہ حدیث متفق علیہ ہے]
اور امام مسلم کی روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں" کہ میں آپ ﷺ کے کپڑوں سے منی کو کھرچ لیتی اگر مجھے نظر آجاتی اور آپ ﷺ انہی کپڑوں میں نماز ادا کرتے"[اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]
حسی طور پر الکحل پاک ہے اور معنوی طور پر الکحل ناپاک ہے اور اس کا پینا گناہ کبیرہ ہے اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے جو شراب کے بارے میں ہے "اے ایمان والو: شراب اور جوا اور بت اور فال کے تیر سب شیطان کے گندے کام ہیں" اس سے مراد نجاست معنوی ہے نہ کہ حسی اور بتوں اور فال کے تیروں کا بھی یہی حکم ہے۔
جب زمین ناپاک ہو جائے تو وہ پانی کے ساتھ یا پانی کے بغیر پاکی ہو جاتی ہے۔ پانی سے پاک ہونے کی دلیل وہ حدیث اعرابی ہے جس نے مسجد میں پیشاب کر دیا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا "کہ اسے کرنے دو، اسکے فارغ ہونے کے بعد اسکے پیشاب پر ایک ڈول پانی ڈال دو یا ایک بڑا ڈول پانی کا ڈال دو ۔ اگر نجاست بہنے والا مادہ ہو تو زمین کے خشک ہونے سے نجاست پاک ہو جاتی ہے "[یہ حدیث متفق علیہ ہے]
کیونکہ حضرت قلابہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ "جب زمین خشک ہو جاتی تو وہ پاک ہو جاتی "[ یہ حدیث امام بخاری نے روایت کی ہے]
ناپاک پانی کو پاک کرنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ اس میں بہت سا پاک پانی ملا دیا جائے یہاں تک کہ نجاست کا اثر ختم ہو جائے۔ یا آج کل جدید وسائل کے ذریعے سے بھی پانی پاک کیا جا سکتا ہے جیسے کہ (فلٹر وغیرہ)
کپڑے کو پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ پانی کے ساتھ دھویا جائے اور پھر رگڑا جائے اور نچوڑا جائے یہاں تک کہ نجاست کا اثر ختم ہو جائے۔
فرش یا بچھونے کو پانی کے ساتھ یا جدید صفائی والی چیزوں کے ساتھ دھویا جائے اور رگڑا جائے جہاں تک کہ نجاست زائل ہو جائے۔
حلال جانور کی جلد پکا کر صاف کرنے سے پاک ہو جاتی ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ "جب چمڑے کو دباغت دیا جائے تو پاک ہو جاتا ہے" [ی اس حدیث کوامام مسلم نے روایت کیا ہے]
جو جانور ذبح کرنے سے جائز نہیں ہوتا وہ دباغت سے بھی پاک نہیں ہو گا اگرچہ وہ زندگی میں پاک ہو۔
چھوٹی بچی کا پیشاب دھویا جائیگا اور بچے کا پیشاب پر پانی کا چھڑکاؤ کافی رہے گا کیونکہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے "بچی کے پیشاب کو دھویا جائے گا اور بچے کے پیشاب پر پانی چھرک دیا جائے گا۔ "[اس حدیث کو امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے]
کتے کے جھوٹے برتن کو سات مرتبہ دھویا جائے اور مٹی کے ساتھ رگڑنا زیادہ بہتر ہے۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں "کہ اس برتن کی پاکی جس میں کتا منہ مار گیا ہو سات مرتبہ دھونا ہے اور بہتر یہ ہے کہ مٹی کے ساتھ دھویا جائے۔ " [یہ حدیث متفق علیہ ہے]
مذی اور ودی کا پاک کرنا اس طرح ہے کہ عضو تناسل کو دھوئے گا اور وضو کرے گا۔ حدیث علی ابن طالب رضی اللہ عنہ کی وجہ سے کہ آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ "اپنا عضو تناسل دھولو اور وضو کرو" [یہ حدیث متفق علیہ ہے]
بہرحال کپڑے کو اس طرح پاک کیا جائے گا کہ جہاں پر مذی اور ودی لگی ہو وہاں پر پانی کا چھڑکاؤ کیا جائے گا۔ حضرت سہیل بن حنیف فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول اگر مذی یا ودی کپڑوں کے ساتھ لگ جائے تو کیا کیا جائے تو آپ ﷺ نے فرمایا "کہ اپنی ہتھیلی میں پانی ڈالو اور جہاں جہاں یہ لگی ہو وہاں پانی چھڑک دو"[اس حدیث کو امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے]
حیض کا خون دھویا جائیگا اور اگر اس کا اثر باقی ہے تو کوئی حرج نہیں۔ آپﷺ کا کہنا ہے "کہ حیض کا خون دھونے کے لیے پانی کافی ہے اور اگر اسکا اثر باقی ہے تو کوئی حرج نہیں "[اس حدیث کو امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے]
اگر جوتے کے ساتھ نجاست لگ گئی ہے تو زمین کے ساتھ رگڑ کر صاف کیا جائے یہاں تک کہ اثر جاتا رہے کیونکہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ "اگر جوتے کے ساتھ گندگی لگ جائے تو بے شک مٹی اس کے لیے پاکی ہے۔"[ اس حدیث کو امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے]
اگر عورت کے لباس کے دامن کے ساتھ نجاست لگ جائے تو اس کے لیے کافی ہے کہ وہ پاک جگہ چلی جائے تو پاک جگہ اس کو پاک کردے گی۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا قول ہے کہ "کیچڑ والی زمین سے گذرنے کے بعد پاک زمین دامن کو پاک کر دیتی ہے" [اس حدیث کو امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے]
کھانے کی چیزمیں جہاں نجاست گری ہے وہ حصہ ناپاک ہے اور باقی کھانا پاک ہے کیونکہ آپ ﷺ سے جب گھی میں گرے ہوئے چوہے کے بارے میں پوچھا گیا توآپ ﷺ نے فرمایا "چوہے کو نکال پھینکو اور اس سے متاثر شدہ حصہ کو نکال کر باقی گھی کو استعمال کرو"[ یہ حدیث امام بخاری نے روایت کی ہے]
اسکو صاف کیا جائیگا یہاں تک کہ نجاست کا اثر ختم ہو جائے۔
1۔ چیزوں کی حقیقت پاکیزگی پر مبنی ہے جب تک کوئی ایسی بات سامنے آئے جو اس کی ناپاکی پر دلالت کرتی ہو۔
2۔ اگر کسی چیز پر نجاست لگ جائے اور نجاست کی جگہ کی نشان دہی نہ ہو رہی ہو تو اس کو پورے کا پورا دھویا جائے۔
3۔ اگر نجاست اپنی ہیئت تبدیل کر جائے تو نجاست نجاست نہیں رہتی جیسا کہ گدھے کی لید جلا دی جائے تو وہ راکھ بن جائے گی۔