موزے چمڑے کے بنے ہوتے ہیں اور پاؤں میں پہنے جاتے ہیں۔
موزے چمڑے کے بنے ہوتے ہیں اور پاؤں میں پہنے جاتے ہیں۔
جرابیں روئی یا کپاس کی بنی ہوتی ہیں اور پاؤں میں پہنی جاتی ہیں
بہت ساری احادیث کی وجہ سے موزوں اور جرابوں پر مسح کرنا جائز ہے۔ ان احادیث میں ایک حدیث حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی ہے جب ان سے موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا "رسول اللہﷺ موزوں پر مسح فرمایا کرتے تھے"[ یہ حدیث متفق علیہ ہے]
1۔ مکمل پاکی کے بعد ان کو پہنا جائے۔ حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں "کہ میں رسول اللہﷺ کے ساتھ سفر میں تھا، پس میں نے وضو کے دوران رسول اللہﷺ کے موزے اتارنے کا ارادہ کیا تو آپﷺ نے فرمایا ان کوچھوڑ دو کیونکہ میں نے پاکی کے بعد ان کو پہنا ہے اور پھر ان پر مسح کیا ہے"[ یہ حدیث متفق علیہ ہے]
2۔ دوسری شرط یہ ہے کہ ان دونوں نے پاؤں کو ٹخنوں تک ڈھانپا ہو اور اگر وہ ٹخنوں سے کم ہیں تو ان پر مسح نہیں کیا جائے گا کیونکہ وہ پاؤں میں سے نہیں ہیں۔
3۔ تیسری شرط یہ ہے کہ وہ دونوں پاک چیزوں سے بنی ہوں۔
4۔ چوتھی شرط یہ ہے کہ وہ دونوں مباح ہوں یعنی ان چیزوں سے نہ بنی ہوں جن کا استعمال مردوں کے لیے حرام ہے جیسے ریشم وغیرہ۔
5۔ پانچویں شرط یہ ہے کہ مسح مقررہ مدت کے دوران کیا جائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے مسح کے لیے مدت مقرر فرمائی ہے جو کہ "مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات ہے اور مسافر کے لیے تین دن اور تین راتیں ہیں" اس مقررہ مدت سے تجاوز کرنا جائز نہیں ہے۔
6۔ وضو کرنے کے دوران ان پر مسح کرنا جائز ہے البتہ جنابت سے غسل کے وقت اتارنا واجب ہے۔ حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ "رسول اللہ ﷺ ہمیں سفر کے دوران موزوں پر مسح کا حکم دیتے تھے اور ہم تین دنوں تک ان کو بڑے پیشاب، چھوٹے پیشاب اور نیند کی وجہ سے نہیں اتارتے تھے البتہ جنابت سے غسل کے وقت اتارتے تھے۔"[ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]
اس کا مطلب یہ ہے کہ جنابت سے غسل کے وقت ان کو اتارا جائے گا اور پھر دوبارہ پہنا جائے گا۔
دونوں ہاتھوں کو پانی سے گیلا کر کے دونوں پاؤں کی انگلیوں سے لے کر پنڈلیوں تک موزوں کے اوپر والے حصے پر ایک مرتبہ مسح کیا جائے گا۔ دائیں ہاتھ سے دائیں پاؤں پر اور بائیں ہاتھ سے بائیں پاؤں پر مسح کیا جائے گا، موزوں کے نیچے اور پشت پر مسح نہیں کیا جائے گا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں "اگر دین کا تعلق عقل کے ساتھ ہوتا تو پھر موزوں کے نچلے حصے پر مسح کیا جانا چاہیے تھا حالانکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو موزوں کے اوپر والے حصے پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے"[ اس حدیث کو امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے]
موزوں پر مسح کرنے کی مدت مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات ہے اور مسافر کے لیے تین دن اور تین راتیں ہیں۔ اس پر دلیل حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ "رسول اللہ ﷺ نے مسح کی مدت مسافر کے لیے تین دن اور تین راتیں اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات مقرر کی ہے"[ اس حدیث کو امام نسائی نے روایت کیا ہے]
مدت کی ابتدا پہلے حدث کے بعد مسح سے ہوتی ہے۔ پس اگر کسی آدمی نے وضو کے بعد جرابیں پہنیں اور پھر اس کا وضو ٹوٹ گیا تو پہلی دفعہ مسح کرنے سے وہ ایک دن اور ایک رات کا حساب لگائے گا یعنی 24 گھنٹے شمار کرے گا۔
اسکی مثال یہ ہے کہ ایک آدمی نے وضو کیا اور دونوں پاؤں کو دھویا پھر اس نے جرابیں پہنیں اور فجر کی نماز ادا کی اور دس بجے اس کا وضو ٹوٹ گیا پھر جب گیارہ بجے تو اس نے چاشت کی نماز پڑھنے کے لیے وضو کیا اور جرابوں پر مسح کیا تو وہ یہاں سے ایک دن اور ایک رات کا حساب لگائے گا یعنی کل گیارہ بجے تک وہ موزوں پر مسح کر سکتا ہے، یہ مقیم کے لیے ہے اور مسافر کے لیے تین دن اور تین راتیں ہیں۔
1۔ مسح کی مدت پوری ہو جانے سے مسح باطل ہو جاتا ہے۔
2۔ دونوں موزوں پر جرابوں کے نکلنے یا ایک کے نکلنے سے مسح باطل ہو جاتا ہے۔
3۔ جنابت کی وجہ سے مسح باطل ہو جاتا ہے۔ حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں "کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں سفر کے دوران تین دن اور تین راتوں تک موزے نہ اتارنے کا حکم دیتے تھے اور ہم بڑے پیشاب، چھوٹے پیشاب اور نیند کی وجہ سے موزے نہیں اتارتے تھے البتہ جنابت کی وجہ سے موزے اتارتے تھے"[ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے]
جبیرہ ان لکڑیوں کو کہتے ہیں جو شکستہ ہڈیوں پر باندھی جاتی ہیں۔
زخمی یا جلی ہوئی جگہ پر دوائی کی غرض سے جو کپڑا لپیٹا جاتا ہے اس کو عصابہ کہتے ہیں۔
دوائی کی غرض سے زخم وغیرہ پر جو کچھ لگایا جاتا ہے اس کو لصوق کہتے ہیں۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں "کہ ہم سفر پر روانہ ہوئے اور ہم میں سے ایک آدمی سر پر پتھر لگنے کی وجہ سے زخمی ہو گیا، پھر اسکو احتلام ہو گیا اور اس نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ میں تیمم کر سکتا ہوں تو انہوں نے کہا آپ پانی کے استعمال پر قادر ہو اس لیے تیمم نہیں کر سکتے۔ پس اس نے غسل کیا اور فوت ہو گیا۔ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور رسول اللہ ﷺ کو یہ بات بتلائی گئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: انہوں نے اس کو قتل کیا ہے، اللہ ان کو غارت کرے، جب وہ نہیں جانتے تھے تو پوچھا کیوں نہیں۔ بے شک نہ جاننے والے کا علاج پوچھنا ہے اس کے لیے تیمم کرنا کافی تھا اور زخم پر پٹی باندھنے کے بعد اس پر مسح کر لیتا اور پھر پورے جسم کو دھو لیت"[ اس حدیث کا امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے]
1۔ جبیرہ اور عصابہ پر مسح میں یہ شرط ہے کہ یہ دونوں چیزیں جس جگہ کا علاج مقصود ہے اور جس جگہ کو ڈھانپنے کی وجہ سے یہ مضبوط ہوتی ہوں، سے متجاوز نہ ہوں۔
2۔ جبیرہ اور عصابہ کے لیے پاکی شرط نہیں ہے اور ان کے لیے کوئی مدت بھی نہیں ہے بلکہ جب تک انسان ان کا محتاج ہے اس وقت تک ان پر مسح کرنا جائز ہے اور جب ان کی ضرورت ختم ہو جائے پھر ان کا اتارنا ضروری ہے اور پاکی کے ہوتے ہوئے صرف اس جگہ کو دھویا جائے گا۔
3۔ لصوق اور عصابہ میں اگر ان کا اتارنا اور واپس باندھنا آسان ہو تو دیکھا جائے گا اگر اس عضو کو دھونے سے کسی نقصان کا بھی خطرہ نہ ہو اور علاج میں بھی تاخیر کا خطرہ نہ ہو تو ان کو اتار لیا جائے گا اور اس عضو کو دھو کر دوبارہ باندھا جائے گا۔
اور اگر نقصان کا یا علاج کے لیٹ ہونے کا خطرہ ہو تو پھر نہیں اتارا جائے گا اور وضو کے وقت متعلقہ عضو پر مسح کیا جائے گا۔