دو چیزوں کے درمیان فاصل کو کہتے ہیں
دو چیزوں کے درمیان فاصل کو کہتے ہیں
اس زمانے اور مکان کو کہتے ہیں جس کو شارع نے عبادت کیلئے مقرر و مختص کیا ہو۔
ان مقامات کو کہا جاتا ہے جن کو شارع نے احرام باندھنے کیلئے مختص کر دیا ہے۔
پس جو آدمی حج اور عمرہ کا ارادہ رکھتا ہو اسکے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ بغیر احرام کے میقات مکانی سے گزر جائے اور وہ پانچ مقامات ہیں۔ [مواقيت اوراسکا محل وقوع]
یہ اب مدینہ منورہ کے جنوب میں واقع ہے اور اسکو بیر علی بھی کہتے ہیں ، مکہ سے تقریبا 420 کلو میڑ دور ہے یہ مدینہ سے آنے والوں کیلئے میقات ہے
یہ مدینہ کے قریب اور مکہ سے تقریبا 186 کلو میڑ دور ہے ۔
یہ شام ، مصر اور مغرب سے آنے والوں کیلئے میقات ہے۔
یمن سے مکہ جاتے ہوئے ایک بہت بڑی وادی آتی ہے جسے آج کل”سعدیہ” کے نام سے پکارا جاتا ہے مکہ سے 120 کلو میڑ کے فاصلے پر ہے یہ یمن سے آنے والوں کیلئے میقات ہے۔
اسے آج کل السیل الکبیر بھی کہا جاتا ہے مکہ سے 75 کلو میڑ کے فاصلے پر ہے یہ نجد اور طائف سے آنے والوں کیلئے میقات ہے اور اسی طرح طائف کے راستے میں ایک اور وادی”وادی محرم” آتی ہے یہ بھی نجد اور طائف سے آنے والوں کیلئے میقات ہے
ذات عرق کو موجودہ دور میں “ضریبہ یا خریبات” بھی کہا جاتا ہے ، یہ مکہ کے مشرق میں تقریبا 100 کلو میڑ کے فاصلے پر واقع ہے اور آج کل بند ہے۔
یہ اھل مشرق “ یعنی عراق اور ایران کی طرف سے آنے والوں کیلئے میقات ہے۔
جو کچھ گزر گیا ہے اس پر دلیل عبداللہ بن عباس کی روایت ہے فرماتے ہیں: " رسول اللہ ﷺ نے ذوالحلیفہ کو مدینہ والوں کیلئے جحفہ کو شام والوں کیلئے، قرن المنازل کو نجد والوں کیلئے ، یلملم کو یمن والوں کیلئے مقرر کرتے ہوئے فرمایا: پس یہ مقامات میقات ہیں ان کیلئے جن کا میں نے تذکرہ کیا اور ان لوگوں کیلئے جو ان کے راستے پر حج اور عمرہ کی ادائیگی کیلئے آئیں اور جو ان کے علاوہ ہیں انکا میقات وہ ہے جہاں وہ پیدا ہوئے یہاں تک کہ اھل مکہ کا میقات مکہ ہے "[ متفق عليہ حديث ہے]
ذات عرق کا تذکرہ حدیث میں نہیں آیا اسکو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مقرر کیا تھا۔[ بخاری کی روايت ہے]
اگر کوئی شخص احرام کے بغیر میقات سے گزرگیا تو اس پر واجب ہے کہ واپس لوٹ آئے اگرواپس نہیں لوٹا تو اس پر دم۔ یعنی فدیہ ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ مکہ میں ایک بکری ذبح کرئے اور حرم کے فقیروں اور غریبوں میں بانٹ دے۔
اگر کوئی آدمی ان میقات کا رہائشی نہ ہو لیکن یہاں سے گزر رہا ہو تو اس کو بھی انہی میقات سے احرام باندھنا ہوگا، پس اگر کوئی نجد کا رہائشی مدینہ سے گزر رہا ہے تو اسکو بھی مدینہ والوں کی طرح بیر علی سے احرام باندھنا ہوگا۔
اگر کوئی آدمی مکہ کے قریب میقات کی حدود سے باہررہتا ہو وہ حج اور عمرہ کیلئے اپنی جگہ سے احرام باندھے گا مثال کے طور پر جدہ، بحرہ اور شرائع کے رھنے والے انہی مقامات سے احرام باندھیں گے۔
اگر کوئی شخص خشکی میں یا سمندر یا ہوا میں سفر کرکے ایسے راستے سے مکہ مکرمہ جا رہا ہے کہ اس میں کوئی میقات مذکورہ مواقیت میں سے نہیں آئے گی تو اس پر مذکورہ مواقیت میں سے کسی میقات کی برابری سے احرام باندھنا واجب ہے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اس قول کی وجہ سے " پس اپنے راستے میں اسکے قریب کوئی میقات تلاش کرو "[ بخاری کی روايت ہے]
اگر کسی آدمی نے مکہ مکرمہ سے حج کا ارادہ کیا چاہے وہ مکہ کا رہائشی ہو یا نہ ہو وہ مکہ سے ہی احرام باندھے گا اور اگر اس نے عمرہ کا ارادہ کیا تو وہ حل یعنی تنعیم اور جعرانہ سے احرام باندھے گا اور یہ دونوں مقامات حرم کی حدود سے باہر ہیں۔
حج اور عمرہ کا زمانہ
حج کے مہینے یعنی شوال، ذوالقعدہ اور دس روز شروع ذی الحجہ کے ہیں
سارا سال