عذریں
بیماری، سفر اور خوف
عذریں
بیماری، سفر اور خوف
مریض پر لازم ہے کہ اپنی طاقت کے مطابق نماز ادا کرے اگر وہ صحت مند کی طرح ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ صحت مند کی طرح نماز پڑھے اور اگر صحت مند کی طرح ادا کرنےکی طاقت نہیں رکھتا تو اپنی طاقت کے مطابق ادا کرے۔
پس مریض پر قیام واجب ہے اگر وہ قیام کی طاقت رکھتا ہے۔اگرقیام کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر اگر بیٹھنے کی بھی طاقت نہ ہو تو پہلو کے بل اور اسکا چہرہ قبلہ رخ ہونا چاہیے۔
اگر پہلو پر بھی ادا کرنے کی قدرت نہ ہو تو اپنی پیٹھ پر ٹیک لگا کر ادا کرےاور اس صورت میں اسکی ٹانگیں قبلہ رخ ہونی چاہیےاگر اس میں اسکے لیے آسانی ہو تو،وگرنہ اپنی حالت کے مطابق ادا کرے۔
اور اس پر دلیل سورۃ التغابن کی سولہویں آیت ہے جسکا تذکرہ پہلے ہو چکا ہے۔اور آپ ﷺ کا قول ہے جو آپ نے عمران بن حصین رضي الله عنه کو فرمایا " کھڑے ہو کر نماز پڑھ اگر کھڑے ہونے کی طاقت نہیں تو بیٹھ کر اگر بیٹھنے کی طاقت بھی نہیں تو پہلو کے بل نماز پڑھو "۔[ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]
1۔ جب مریض بیٹھ کر نماز پڑھے اور سجدے کی طاقت رکھتا ہو تو اس پر سجدہ واجب ہے۔
2۔ اورجب بیٹھ کر نماز پڑھے اور سجدے سے عاجز ہوتو اپنے جسم کے ساتھ رکوع اور سجود کا اشارہ کرےاور اسکا سجدہ اسکے رکوع سے زیادہ پست ہو۔اگر بدن کے ساتھ اشارہ مشکل ہو تو اپنے سر کے ساتھ کرے۔اسی طرح پیٹھ پر نماز کی صورت میں بھی اپنے سر کے ساتھ اشارہ کرے۔
3۔ جب مریض پر ہر نماز کےلیے پاکی حاصل کرنا مشکل ہو یا تمام نمازوں کو انکے اوقات میں ادا کرنا مشکل ہو تو اسکے لیے ظہر اور عصر کی نمازاور مغرب اور عشاء کی نماز کو آسانی کے مطابق پہلے وقت میں یا دوسرے وقت میں جمع کرناجائز ہے۔
4۔ جب تک مریض کی عقل باقی ہو اس سے نماز کبھی بھی ساقط نہیں ھوتی پس مریض کے لئے مرض کا بہانہ بناتے ہوئے نماز میں سستی کرنا مناسب نہیں اور نماز کی ادائیگی کی بقدر استطاعت کوشش کرے۔
5۔ اگر بیمارکئی دن تک بےہوش رہا تو افاقہ ہونے کی صورت میں اپنی طاقت کے مطابق نماز ادا کرے۔ اور اس پر بیہوشی والے دنوں کی نمازوں کی قضا نہیں ہے۔لیکن اگر بیہوشی کے دن کم ہوں یعنی وہ ایک دن یا دو دن بیہوش رہا تو اس صورت میں بیہوشی والے دنوں کی نمازوں کی قضا واجب ہے۔
مسافر کا چار رکعتی نمازوں (ظہر، عصر، عشاء) میں قصر کر کے دو رکعتیں پڑھنا مشروع ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں" جب تم سفر میں جا رہے ہو تو تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں "
اور حضرت انس بن مالک رضي الله عنه فرماتے ہیں " ہم رسول ﷺ اللہ کے ساتھ مدینہ سے مکہ کے سفر پر نکلے تو رسول ﷺ اللہ ہمیں دو رکعتیں پڑھاتے تھے یہاں تک کہ ہم واپس لوٹ آئے "[اس حدیث کو امام نسائی نے روایت کیا ہے]
ہر وہ چیز جس پر عرف میں سفر کا اطلاق ہوتا ہو اسکو سفر کہتے ہیں اور اس میں قصر کی جائے گی۔
1۔ مسافر قصر اس وقت کرے گا جب وہ اپنے شہر کی آبادیوں سے دور نکل جائے۔ اور جب تک وہ شہر کی آبادی میں ہے اس کے لیے قصر جائز نہیں ہے کیونکہ رسول ﷺ اللہ سے شہرکی آبادی سے نکلنے سے پہلے قصر ثابت نہیں ہے۔
2۔ جب مسافرکسی شہر میں پہنچااور وہاں چار دن یا اس سے زیادہ کی اقامت کا ارادہ کر لیا تو اس پر لازم ہے کہ وہ پوری نماز پڑھے اور اگر اس نے اس سے کم کی نیت کی تو پھر قصر کرنا جائز ہے اور اگراس نے معیّن دنوں کی نیت نہیں کی بلکہ یہ نیت کی کہ جب میرا کام ہو جائے گا میں چلا جاؤں گا تو قصر کرنا جائز ہے اگرچہ چار دن سے زیادہ دن ہی کیوں نہ گذر جائیں۔
3۔ اگر مسافر مقیم امام کے ساتھ نماز میں شامل ہو گیا تو اس پر پوری نماز پڑھنا واجب ہے۔
4۔ اگر مقیم نے قصر کرنے والے مسافر کے پیچھے نماز پڑھی تو اس پر سلام کے بعد نماز کا پورا کرنا واجب ہے۔
1۔ مسافر اور مریض کے لیے ظہر اور عصر کو دونوں میں سے کسی ایک کے وقت میں جمع کرنا جائز ہے۔ اور اسی طرح مغرب اور عشاء کو بھی دونوں میں سے کسی ایک کے وقت میں جمع کرنا جائز ہے۔
پس اگر دونوں میں سے پہلی نماز کے وقت میں دونوں کو جمع کیا تو اسکو جمع تقدیم کہتے ہیں۔اور اگر دوسری نماز کے وقت میں جمع کیا تو اسکو جمع تاخیر کہتے ہیں۔
2۔ دو نمازوں کو ایک وقت میں (شدید بارش کی مشقت اور حرج سے بچنے کی وجہ سے) جمع کرنا مسجد میں نماز پڑھنے والے کے لیے جائز ہے جو عورتوں کی طرح گھر میں نماز پڑھتا ہے اس کے لیے جائز نہیںَ ہے۔
3۔ نمازوں کا جمع صرف سفر میں نہیں ہوتا بلکہ حضر یعنی اقامت میں بھی ہو سکتا ہے۔
عذر اور بلا عذر دونوں صورتوں میں سواری پر نماز صحیح ہے۔ کیونکہ رسول ﷺ اللہ سے ثابت ہے " کہ آپ سواری پر نفلی نماز پڑھا کرتے تھے۔جس طرف بھی آپکی سواری متوجہ ہوتی تھی "۔[ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]
تو اس وقت سواری پر نماز صحیح ہے جب زمین پر اترنے کی طاقت نہ رکھتا ہویا اترنے کی صورت میں دوبارہ سوار نہ ہو سکتا ہو یا دشمن کا خوف ہو اوراس جیسی کوئی اور صورت ہو۔اسکی متعدد صورتیں ہیں۔
ا۔ایک صورت یہ ہے کہ قبلے کی طرف منہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہواور رکوع اور سجدہ کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہو جیسا کہ جب کشتی میں ھوتو اس پر پرانی کیفیت میں نماز ادا کرنا لازم ہے اس لیے کہ وہ اسکی طاقت رکھتا ہے۔
ب۔دوسری صورت یہ ہے کہ جب قبلے کی طرف منہ کرنے کی طاقت رکھتا ہو اور رکوع اورسجدہ کرنے کی طاقت نہ ہوتو تکبیرتحریمہ کےوقت قبلہ رخ ہونا ضروری ہےپھر سواری جس طرح بھی متوجہ ہو نماز پڑھے اور رکوع اور سجدہ اشارے سے کرے۔
خوف کی نماز ہر جائز لڑائی میں چاہے حضر میں ہو یا سفر میں جائز ہے اور کتاب اور سنت اس کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔
1۔ (قرآن سے دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں «اس وقت تم پر کوئی گناہ نہیں جب کہ تمہیں تکلیف ہو یا بوجہ بارش کے یا بسبب بیمار ہو جانے کے اور اپنے بچاؤ کی چیزیں ساتھ لیے رہو")
2۔ اور سنت سے دلیل یہ ہے کہ رسول ﷺ اللہ نے خود صحابہ کے ساتھ صلاۃ خوف ادا کی اور آپ ﷺ کے بعد آپ کے صحابہ دوسرے صحابہ کرام کے ساتھ صلاۃ خوف ادا کرتے تھے۔
خوف کا رکعات کی تعداد پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اگر وہ مقیم ہے تو اتنی ہی رکعات پڑھے گا جتنی وہ پہلے پڑھتا تھا اور اگر سفر کی حالت میں ہے تو قصر کرے گا البتہ اسکا طریقہ مختلف ہے۔
صلاۃ خوف کی ادائیگی کے قرآن و حدیث میں متعدد طریقے وارد ہوئے ہیں جو تمام کے تمام جائز ہیں۔
اس صورت میں رسول ﷺ اللہ سے وارد طریقوں میں سے کسی بھی طریقے پر وہ نماز پڑھ سکتا ہے اور زیادہ مشہور طریقہ وہ ہے جو سہل بن ابی حثمہ کی حدیث میں وارد ہوا ہے۔
اور اسکی صورت یہ ہے کہ امام لوگوں کے دو گروہ بنائے ایک گروہ کو دشمن سے حفاظت پر مامور کر دے اور دوسرے گروہ کے ساتھ نماز پڑھے۔ ایک رکعت پڑھنے کے بعد جب امام دوسری رکعت کے لیے اٹھے تو یہ گروہ امام سے علیحدہ ہو کر اپنی نماز پوری کرے اور سلام پھیرنے کے بعد پہرے کے عمل میں مصروف ہو جائے اور دوسرا گروہ آکر امام کے ساتھ دوسری رکعت میں شریک ہو جائے۔
اور جب امام تشھد کے لیے بیٹھے تو یہ کھڑے ہو جائیں اور اپنی بقیہ نماز پوری کرتے ہوئے جب تشہد کے لیے بیٹھ جائیں تو امام ان کا برابر انتظار کرتا رہے یہاں تک کہ وہ بھی تشہد پڑھ لیں تو امام ان کے ساتھ سلام پھیرے۔[ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]
یہ کیفیت اور طریقہ اس وقت ہے جب وہ سفر میں صلاۃ خوف ادا کر رہے ہوں یا مقیم ہونے کی صورت میں صبح کی نماز بطور صلاۃ خوف ادا کر رہے ہوں۔
اور اگر مقیم ہونے کی صورت میں صبح کی نماز کے علاوہ بقیہ نماز بطور صلاۃ خوف ادا کر رہے ہوں تو پہلا گروہ امام کے ساتھ دو رکعتیں پڑھے گا اور جب امام تیسری رکعت کے لیے اٹھے گا تو یہ اپنی نماز پوری کر کے پہرےکے عمل میں مصروف ہو جائےاور دوسرا گروہ نماز پڑھنے کے لیے آ جائے گا اور باقی طریقہ وہی ہے جو اوپر بیان ہو چکا ہے۔
اور اس صورت میں پیدل اور سوار اسی حالت میں قبلہ رخ ہو کر نماز ادا کریں اگر قبلہ رخ ہونا ممکن ہو تو اور اگر ممکن نہ ہو تو جس طرف چاہیں نماز پڑھیں۔حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں’اگر خوف بہت شدید ہو تو وہ جہاں ہیں پیدل ہیں یا سواری پر ، قبلہ رخ ہیں یا نہیں ہیں نماز ادا کریں۔ [اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]
اور تیسری صورت یہ ہے کہ وہ رکوع اور سجدہ اشارے سے ادا کریں گے۔پس نماز پڑھیں جس بھی حالت میں ہوں۔ چاہے چل رہے ہوں یا جہاز میں سوار ہوں یا سواری پر سوار ہوں جیسا کہ سخت لڑائی اور خوف کے وقت کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ البقرہ میں فرماتے ہیں "اگر تمہیں خوف ہو تو پیدل ہی سہی یا سوار ہی سہی نماز ادا کرو"
وہ اہم خصوصیات جنکی وجہ سے شریعت اسلامیہ دوسری شریعتوں سے ممتاز ہے ان میں سے ایک معافی ہے اور آسانی ہے،حرج کو دور کرنا ہے،اور یہ شریعت میں عام قاعدہ ہے،مشقت آسانی کو کھینچ لاتی ہے۔