اللہ تعالیٰ کا قول: " اگر ہم اب لوٹ کر مدینہ جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلت والے کو نکال دے گ "
حضرت جابر بن سمرۃ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا " کہ اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ کا نام طابہ رکھا ہے "۔[ يہ مسلم کی روايت ہے]
زید بن ثابت سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:"کہ مدینہ پاک ہے یہ گناہوں کو اس طرح پاک کرتی ہے جس طرح آگ چاندنی کی گندگی کو صاف کرتا ہے۔"[ يہ حديث متفق عليہ ہے]
1- حضرت سعد بن ابی قاص سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: " مدینہ منورہ انکے لیے بہتر ہے اگر وہ جانتے کوئی بھی شخص مدینہ منورہ سے اعراض کرتے ہوئے اسکو چھوڑ دے تو اللہ تعالیٰ اس سے بہتر شخص اس میں داخل کر دے گا ، جو بھی شخص اسکی سختیوں پر صبر کرے تو قیامت کے دن میں اسکا شفیع اور گواہ ہونگا۔"[ يہ مسلم کی روايت ہے]
2- حضرت ابو ہر یرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے "کہ آپﷺ کا ارشاد ہے کہ مجھے ایسی بستی کی طرف ہجرت کا حکم ملا ہے جو تمام بستیوں پر غالب ہے اور لوگ اسکو یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے جو کہ لوگوں کو صاف کرتی “ یعنی شرپسند لوگوں کو جدا کرتی ہے” جیسے کہ لوہار کی پھونکنی لوہے کو گندگی سے صاف کرتی ہے۔"[ يہ حديث متفق عليہ ہے]
1- مدینہ منورہ پرامن حرم ہے دو پہاڑ عیر اور ثور کے درمیان واقع ہے جسکے درخت نہیں کاٹے جاتے اور نہ ہی اس میں شکار کیا جاتا ہے۔
آپﷺ نے فرمایا : " مدینہ عیر پہاڑ سے لیکر ثور پہاڑ تک حرم ہے جس شخص نے مدینہ میں بدعت یا گناہ کے کام کیے یا گناہ کرنے والے کو ٹھکانہ دیا اس پر اللہ کی ،فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے نہ نفلی عمل قبول کریں گے نہ ہی فرض عمل۔ "[ يہ حديث متفق عليہ ہے]
اور آپﷺ نے مدینہ کو حرم قرار دیا جیسے کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا، عبد اللہ بن زید سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا " کہ میں مدینہ کو حرم قرار دیتا ہوں جیسے کہ ابراھیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا اور میں نےاسکے لیے اسکےمد اور صاع میں برکت کی دعا کی ہے “یعنی ہر چیز میں برکت کی دعا کی ہے”۔جیسے کہ ابراھیم ؑنے مکہ کیلئے دعا کی تھی ۔ "[ يہ بخاری کی حديث ہے]
مکہ کے حرم ہونے اور مدینہ کے حرم ہونے میں فرق۔ یہ ہے کہ مکہ کاحرم ہونا نص اور اجماع کیساتھ ثابت ہے اور مدینہ کے بارے میں ائمۃ کا اختلاف ہے، اور صحیح یہ ہے کہ مدینہ حرم ہے۔
2-مسجد نبویﷺ میں نماز کا ثواب دو گنا ہے۔
آپﷺ کا ارشاد ہے کہ میری مسجد " مسجد نبوی میں نماز پڑھنا اور مسجدوں میں نماز پڑھنے سے ہزار گنا افضل ہے سوائے مسجد حرام کے۔"[ يہ بخاری کی حديث ہے]
3-کیونکہ مدینہ جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے اس لیے اس میں نماز پڑھنا مسنون ہے۔
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺنے فرمایا " میرے گھر اور منبر کے درمیان کی جگہ جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے، اور میرا منبر میرے حوض پر ہے۔ "[ يہ حديث متفق عليہ ہے]
4-مدینہ منورہ میں دجال داخل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی طاعون [ الطاعون: خبيث مرض ہے] کی بیماری۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ " دجال مدینہ کی طرف آئے گا پس وہ فرشتوں کو پائے گا جو اسکی حفاظت کر رہے ہوں گے، انشاءاللہ مدینہ میں طاعون اور دجال داخل نہیں ہوگ "۔[ يہ ترمذی کی حديث ہے]
5- بیشک آپﷺ نے مدینہ کیلئے برکت کی دعا کی ہے۔
حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: "(اے اللہ مدینہ میں اس برکت کو دوگنا کر دیں جو آپ نے مکہ میں نازل فرمائی ہے)" [يہ حديث متفق عليہ ہے]
6- بیشک مکہ میں شکار کرنے پر سزا ہے اور گناہ بھی ہے لیکن مدینہ میں شکار کرنے پر گناہ ہے لیکن سزا نہیں ہے، مکہ میں شکار کرنا بڑا گناہ ہے بالمقابل مدینہ کے۔ [الممتع کی جلد ۷ صفحہ ۲۵۷ ملاحظہ کريں]
مسجد نبویﷺ کی زیارت کرنا ، ارکان حج ، شروط حج ، اور واجبات میں سے نہیں ہے یہ سنت ہے کسی بھی وقت کرنا مشروع ہے۔
زیارت سے مقصود مسجد نبویﷺ میں نماز کی ادائیگی ہونی چاہیئے نہ کہ قبر کی زیارت، کیونکہ حضرت ابی ہریرۃ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: "(صرف تین مسجدوں کی طرف سفر کرو: مسجد حرام ، مسجد نبویﷺ ، اور مسجد اقصیٰ )"۔ [يہ مسلم کی روايت ہے]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے: اگر کوئی شخص زیارت قبر کی نیت کرے اور مسجد نبویﷺ میں نماز کی نیت نہ کرے تو یہ فعل غیر مشروع ہے اور نبی ﷺ کی قبر کی زیارت کے بارے میں وارد احادیث کے ضعیف ہونے پر سارے محدثین کا اتفاق ہے ہیں ، بلکہ من گڑھت ہیں، ائمۃ میں سے کسی نے اسکو دلیل بھی نہیں بنایا۔ [مجموع الفتاوی جلد ۲۷ صفحہ ۲۶]
1- جب زیارت کرنے والا شخص مسجد نبوی پہنچے تو اپنا سیدھا پاؤں مسجد میں داخل کرے اور یہ دعا پڑھے: "(اے اللہ میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے)"۔ [يہ مسلم کی روايت ہے]
2- اگر روضہ شریف میں دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھ لے تو زیادہ افضل ہے ۔
3- آپﷺ کی قبر کی اورآپﷺ کے دو صحابہ (ابو بکر صدیق و عمر فاروق رضی اللہ عنہما) کی قبر کی زیارت کرنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ آپﷺ کی قبر کی طرف منہ کر کے آہستہ آواز کیساتھ یہ درود پڑھے: ( السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته، صلى الله عليك، وجزاك عن أمتك خيرًا)
ترجمہ: اے اللہ کے نبی ﷺ آپﷺ پر سلامتی نازل ہو اور اللہ کی رحمت اور اسکی برکت اور اسکا درود ، اور اللہ آپﷺ کو آپ ﷺ کی امت کی طرف سے بہتر جزا دے۔
پھر ایک دو قدم حضرت ابو بکر صدیق کی قبر کی طرف بڑھائےاور یہ کلمات کہے: اے ابو بکر صدیق رسول اللہ کے خلیفہ آپ پر اللہ کی سلامتی ہو اور اسکی رحمت اور اسکی برکت ہو، اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہوں اور آپ کو محمد ﷺ کی امت کی طرف سے بہتر جزا دے۔
پھر ایک دو قدم حضرت عمر فاروق کی قبر کی طرف بڑھائے اور یہ کلمات کہے: اے عمرامیر المؤمنین آپ پر اللہ کی سلامتی ہو اور اسکی رحمت اور اسکی برکت ہو، اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ں اور آپ کو محمد ﷺ کی امت کی طرف سے بہتر جزا دے۔
4- مسجد نبوی کی زیارت کرنے والے شخص کیلئے مناسب یہ ہے کہ پانچ نمازیں مسجد نبوی میں ادا کرے ،زیادہ سے زیادہ ذکر کرے اور دعائیں مانگے اور نفل نماز خصوصی طور پر روضہ شریف کے اندر ہی ادا کرے۔
5- پھر مسجد قباء کی زیارت کرے اور نماز ادا کرے اگر زیارت ہفتے کے دن کرے تو افضل ہے کیونکہ حضرت ابن عمر نے فرمایا کہ " آپﷺ مسجد قباء کبھی سوار ہو کر آتے تو کبھی پیدل چل کر اور دو رکعت نماز ادا کرتے بعض جگہ روایت ہے کہ ہر ہفتے کے دن آتے۔" [يہ مسلم کی روايت ہے]
6- جنت بقیع اور شھداء کی قبروں کی زیارت کرنا سنت ہے خاص طور پر حضرت حمزہ کی قبر کی زیارت کرنا کیونکہ آپﷺ ان قبروں کی زیارت کرتے اور انکے لیے دعا کرتے اور زیارت کرتے ہوئے یہ کلمات کہتے "سلامتی ہو تم پر اے قبر والو مومنو اور مسلمانو اگر اللہ نے چاہا تو ہم بھی آپ سے ملیں گے میں اللہ سے اپنے لیے اور مسلمانوں کیلئے عافیت کا سوالی ہوں۔"[ يہ مسلم کی روايت ہے]
1- مدینہ منورہ کی طرف زیارت کیلئے سفر کرنا جس میں مسجد نبوی بھی شامل ہے۔
2- قبر کی طرف منہ کرکے دعا مانگنا۔
3- نبی اکرمﷺ سے حاجات طلب کرنا بڑا شرک ہے۔
4- روضے کی دیواروں کیساتھ اپنے آپ کو ملانا برکت کی نیت سے یہ بدعت میں شامل ہے اور شرک کے وسیلوں میں سے ایک وسیلہ ہے۔
5- آواز اونچی کرنا ، قیام کو لمبا کرنا ، سلام کا تکرار کرنا ، او اپنے ہاتھوں کو سینے پر باندھنا نماز کی طرح یہ سب بدعات میں شامل ہیں۔