1۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ لیلۃ القدر کو تعظیم کی وجہ سے لیلۃ القدر کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ انعام میں فرماتے ہیں «اور اسکا مطلب یہ ہے کہ یہ عزت اور شرافت والی رات ہے کیونکہ قرآن کریم اسی رات میں نازل ہوا اور اسی رات اللہ کے فرشتے برکت، رحمت اور مغفرت نازل ہوتی ہے یا پھر اس لیے لیلۃ القدر کہا گیا کہ جو آدمی اس رات کو جاگ کر اللہ کی عبادت میں گزارتا ہے وہ بھی عزت و شرافت والا ہو جاتا ہے»
2۔ بعض علماءفرماتے ہیں :قدر کا مطلب ہے (تنگی)، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں " اور اس رات کو لیلۃ القدر اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں بھی تنگی پائی جاتی ہے اس اعتبار سے کہ یہ کسی پر واضح نہیں کی گئی یعنی معلوم نہیں ہے یا پھر اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس رات فرشتوں کی بہتاب کی وجہ سے زمین تنگ ہو جاتی ہے "
3۔ یا قدر (قدر) سے ہے اور اس رات کو لیلۃالقدر اس لیے کہتے ہیں کہ اس رات بھی سارے سال کے احکام لکھے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سورۃ دخان میں فرماتے ہیں " اسی رات میں ہر ایک مضبوط کام کا فیصلہ کی جاتا ہے"[دیکھیے فتح الباری کو ص۔ 255/4]
اللہ تعالیٰ سورۃ القدر میں فرماتے ہیں " یقیناً ہم نے اسے شب قدر میں نازل فرمای "
اللہ تعالیٰ سورۃ القدر ہی میں فرماتے ہیں " یعنی لیلۃ القدر میں نیک کام ان ہزار مہینوں کے نیک کاموں سے بہتر ہے جس میں لیلۃ القدر نہ ہو "
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں " اس (میں ہر کام) کے سر انجام دینے کو اپنے رب کے حکم سے فرشتے اور روح (جبرائیلؑ) اترتے ہیں اور روح سے مراد جبرائیلؑ ہیں "
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا " لیلۃ القدر ستائیسویں یا انتیسویں کی رات ہے اور اس رات زمیں پر ملائکہ کی تعداد کنکریوں سے زیادہ ہوتی ہے " [اس حدیث کو ابن حزیمہ نے روایت کیا ہے]
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں " یہ رات سراسر سلامتی کی رات ہوتی ہے اور فجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے " یعنی یہ رات تمام کی تمام خیر ہوتی ہے اس میں کسی قسم کا کوئی شر نہیں ہوتا شروع سے لیکر طلوع فجر تک۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں " یقنیاً ہم نے اسے بابرکت رات میں اتارا ہے۔ بےشک ہم ڈرانے والے ہیں " حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں “برکت والی رات سے مراد لیلۃ القدر ہے”
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں " اسی رات میں ہر ایک کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے "
رسول اللہ فرماتے ہیں " جس کسی نے شب قدر میں ایمان اور نیک نیّتی سے اللہ کی عبادت کی اسکے پچھلے سارے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں " [اس حدیث پر امام بخاری اور امام مسلم کا اتفاق ہے]
اللہ تعالیٰ نے اس رات کو چھپا دیا تاکہ مسلمان رمضان کے آخری عشرہ میں خصوصاً آخری عشرہ کے وتر راتوں میں (جو کہ 21،23،25،27 اور 29 کی راتیں ہیں) خوب محنت اور کوشش سے اللہ کی عبادت کرے۔
رسول اللہﷺ فرماتے ہیں " رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں لیلۃ القدر کو ڈھونڈو " [اس حدیث پر امام بخاری اور امام مسلم کا اتفاق ہے]
بعض علماء نے دلائل کی روشنی میں ذکر کیا ہے کہ یہ رات آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تبدیل ہوتی رہتی ہے کبھی 21 کو کبھی 23،25،27 اور کبھی 29 کو ہوتی ہے۔
اعتکاف صرف شب قدر کے ساتھ خاص نہیں بلکہ پورے آخری عشرہ میں ہوتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں " رسول اللہﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے "[ اس حدیث پر امام بخاری اور امام مسلم کا اتفاق ہے]
رسول اللہﷺ فرماتے ہیں " جس کسی نے شب قدر کی رات ایمان اور نیک نیّتی کے ساتھ جاگ کر اللہ کی عبادت میں گزاری اسکے پچھلے سارے گناہ معاف کر دیے جائیں گے " [اس حدیث پر امام بخاری اور امام مسلم کا اتفاق ہے]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں " میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا اگر میں نے شب قدر جاگ کر گزاری تو میں اللہ سے کیا دعا مانگوں؟ رسول اللہﷺ نے جواب دیا تم کہو اے اللہ آپ بخشنے والے ہیں اور بخشنے کو پسند فرماتے ہیں۔ پس مجھے بخش دیجیے گ "[ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں " جب رمضان کا آخری عشرہ آجاتا تو رسول اللہﷺ ہم بستری سے پرہیزکرتے تھے اور رات جاگ کر گزارتے تھے اور اپنے اہل و عیال کو بھی اللہ کی عبادت کے لیے اٹھاتے تھے "[ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]
حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا " مجھے شب قدر دکھائی گئی پھر مجھے بھلوا دی گئی اور وہ رمضان کے آخری عشرے کے راتوں میں سے ایک رات ہے اور وہ معتدل، چمکدار، نہ زیادہ گرم اور نہ زیادہ سرد رات ہے " [اس حدیث کو ابن حزیمہ نے روایت کیا ہے]
جب حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے شب قدر کی نشانیوں کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا " ہمیں رسول اللہﷺ نے یہ نشانی بتائی ہے کہ اس رات کی صبح سورج طلوع ہوگا اور اسکی کرنیں نہیں ہونگی (اور امام مسلم کی روایت میں ہے) سورج سفیدی کی حالت میں بغیر کرنوں کے طلوع ہوگ " [اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے]
1۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ رمضان کے آخری عشرہ کی راتوں میں خوب عبادت کریں کیونکہ یہ پورے سال کی راتوں میں بہترین راتیں ہیں۔
2۔ مسلمان کو چاہیے کہ وہ قیمتی اوقات اور خیر کے مواقع کو لہو و لعب اور بازار میں بغیر کسی حاجت کے گھومنے میں ضائع نہ کرے۔