فطرانہ
وہ صدقہ جسکی ادائیگی رمضان کے گزرتے ہی مسلمانوں پر فرض ہو جاتی ہے۔
فطرانہ
وہ صدقہ جسکی ادائیگی رمضان کے گزرتے ہی مسلمانوں پر فرض ہو جاتی ہے۔
اس کا نام زكات الفطر اس لیے رکھا گیا ہے کہ یہ افطار کی وجہ سے واجب ہوتی ہے۔
زكات فطرانہ ہر اس مسلمان پر واجب ہے جو عید کے دن اور اسکی رات اپنے اور اپنے اہل و عیال کے کھانے کے سوا ایک صاع کا مالک ہو۔
فطرانہ ادا کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی بیوی کی طرف سے اور ہر اس فرد کی طرف سے ادا کرے جس کا نان نفقہ اسکے ذمہ ہے اور جنین کی طرف سے ادا کرنا مستحب ہے۔
اس وجوب کی دلیل حضرت ابن عمر کی حدیث ہے کہ" آپؐ نے ایک صاع کھجور اور ایک صاع جو فطرانہ، ہر آزاد، غلام، چھوٹے اور بڑے پر فرض کیا ہے۔اور حکم دیا ہے کہ ااس کو عید فطر کی نماز سے پہلے ادا کیا جائے "[ یہ حدیث متفق علیہ ہے]
فطرانے کی ادائیگی کا افضل ترین دن عید کا دن ہے طلوع فجر کے بعد اور عید کی نماز سے پہلے اور اسکو عید سے ایک دو دن پہلے دنیا بھی جائز ہے صحابہ کے فعل کیوجہ سے لیکن عید کی نماز سے تاخیرجائز نہیں ہے پیچھے گزری حدیث میں ہے " جس نے نماز سے پہلے ادا کی تو زكات مقبول ہے لیکن اگر بعد میں ادا کی تو صدقات میں سے ایک صدقہ ہے "[ یہ حدیث امام ابوداؤد کی روایت ہے]
ایک صاع کی مقدار دو آدمیوں کے کھانے کے برابر ہوتا ہے جیسے چاول، کھجور اور گیہوں ۔ حضرت سعید خدری فرماتے ہیں " ہم آپؐ کے زمانے میں عید فطر کے دن ایک صاع اپنے کھانے سے زكات فطر نکالتے تھے۔اور ہمارا کھانا جو، کشمش، خشک دودھ اور کھجور ہوتا تھ "۔[ یہ بخاری سے روایت ہے]
صاع کی مقدار احناف کے نزدیک 3.25 کلو گرام ہے اور جمہور کے نزدیک 2.040 کلو گرام ہے۔ اور اسکی مقدار متوسط آدمی کی چار ہتھیلیاں بھی ہو سکتی ہے۔
جنکو زكات دی جا سکتی ہے انکو فطرانہ بھی دیا جا سکتا ہے فطرانہ اللہ کے اس قول میں داخل ہے جو زكات کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں " صدقے صرف فقیروں کے لیے ہیں۔ "
۱۔ روزے دار کو لغو اور گندگی سے پاک کرنا ابن عباس کی روایت کیوجہ سے " رسول نے فطرانے کو روزے دار کیلئے لغو اور گندگی سے پاکی کیلئے اور مساکین کے کھانے کے لیے" [یہ حدیث امام ابوداؤد سے روایت ہے]
فرض کیا ہے اور روزے دار غالباً لھو اور لغوکلام کا شکار ہو جاتا ہے لہٰذا فطرانہ روزے دار کی ان کمیوں کو پورا کرتا ہے اور لغو کلام وہ ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور فطرانہ ان حرام الفاظ کے گناہ کو ختم کرتا ہے کیونکہ اس طرح کا کلام اعمال کے ثواب کو کم کرتا ہے اور گویا روزوں کو جلاتا ہے۔
2۔ عید کے دن فقیروں اور مسکینوں کے معاملے میں وسعت کرنا تاکہ سوال کی نوبت نہ آئے کیونکہ سوال کرنے میں ذلت ہے اور عید خوشی کا دن ہے اور یہ مناسب نہیں ہے تاکہ وہ بھی اور لوگوں کی خوشی میں برابر کے شریک ہوں۔