جو حاجی یا عمرہ کرنے والے پر واجب چھوڑنے یا ممنوع عمل کرنے کی وجہ سے واجب ہو جاتا ہے۔
جو حاجی یا عمرہ کرنے والے پر واجب چھوڑنے یا ممنوع عمل کرنے کی وجہ سے واجب ہو جاتا ہے۔
جس نے حج یا عمرہ کے واجبات میں سے کوئی واجب چھوڑ دیا جیسا کہ اگر کسی نے مزدلفہ میں رات کے قیام یا سر منڈوانا یااس کے علاوہ کوئی اور واجب چھوڑ دیا تو اس پر فدیۃ واجب ہے اور وہ خون بہا ہے۔
دم اونٹ یا اونٹنی کا ساتواں حصہ یا گائے کا ساتواں حصہ یا ایک سال کی بکری یا چھ ماہ کے دنبے کو کہتے ہیں جو کہ حرم مکی میں ذبح کیا جائے گا اور فقیروں میں تقسیم کیا جائے گا۔
اور اگر اسکو کچھ بھی نہیں ملا تو وہ دس روزے رکھے گا تین روزے حج کے دوران اگر رکھ سکےاور سات روزے گھر لوٹ کر، اللہ جل شاُنہ فرماتے ہیں " جسےطاقت ہی نہ ہو وہ تین روزے تو حج کے دنوں میں رکھ لے اور سات واپسی میں ، یہ پورے دس ہو گئے یہ حکم ان کیلئے ہے جو مسجد حرام کے رہنے والے نہ ہوں ، لوگو! اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ سخت عذاب والا ہے "
اس فدیۃ کو تین چیزوں میں سے چنا جائے گا:
1- تین دن روزے رکھنا ۔
2- چھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ، ہر مسکین کو چاول یا اسکے مثل میں سے نصف صاع دیا جائے گا۔
3- بکری ذبح کا کرنا۔
اور اس پر دلیل اللہ تعالیٰ کا قول ہے" اور اپنے سر نہ منڈواو جب تک کہ قربانی قربان گاہ تک نہ پہنچ جائے البتہ تم میں سے جو بیمار ہو، یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو جس کی وجہ سے سر منڈوئے تو اس پر فدیۃ ہے خواہ روزے رکھ لے خواہ صدقہ دے ، خواہ قربانی کرے "
پس اگر کسی آدمی نے قصدا ممنوع پانچ کاموں میں سے کوئی کام کر ڈالا یا کسی تکلیف یا اذیت کی وجہ سے کرنے کی ضرورت پیش آئی تو کر ڈالا جیسا کہ حضرت کعب نے کیا تھا پس وہ فدیہ دیگا اور اگر اسے فدیہ الاُذی کہتے ہیں۔
اور اگر کسی نے ان ممنوع پانچ کاموں کا غلطی سے ارتکاب کر ڈالا تو اس پر کچھ بھی نہیں ہے۔
اور یہ پہلے گزرے ہوئے فدیہ الاذی کی طرح ہے
اور یہ اونٹ کا ذبح کرنا ہے اگر یہ میسر نہ ہو تو دوران حج تین روزے رکھے اور سات روزے گھر واپس آکر رکھے، اور اسکا حج فاسد ہو جائے گا اور اس پر لازم ہے کہ وہ اسے مکمل کرے اور آئندہ سال اسکی قضاء کرے۔
اور وہ بکری ذبح کرنا ہے اور اسکا عمرہ فاسد ہو جائے گا اور اس پر اسکی قضاء کرنا لازم ہے۔
اگر شکار کا مثل پایا جائے تو پھر اسکے لیے اختیار ہے اسکا مثل دے یا اسکی ريال ميں قیمت لگائے میں جن سے کھانا خريدے اور کھانا مدوں میں تقسیم کردے اور ہر مسکین کو دو مد کھانا کھلائے یا ہر دو مدوں کے بدلے ایک روزہ رکھے اور صید مثل سے
مراد ہے کہ اسکی بعض یا بالکل قریب کی مشابہت پائی جائے اس سے مراد مکمل طور پر مماثلت نہیں ہے کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں ہے
مثال کے طور پر اگر اس نے شتر مرغ شکار کیا تو اس پر ایک اونٹ لازم ہے کیونکہ اس میں اونٹ کی مشابہت پائی جاتی ہے یا پھر اسکی قیمت لگوائے گا اور پھر اسکی قیمت کے بقدر کھانا یعنی چاول یا گندم وغیرہ خریدے گا اور پھر ہر مسکین کو اس میں سے دو، دو مد دے گا یا ہر دو مدوں کے بدلے ایک روزہ رکھے گا ۔
اور اگر شکار کا کوئی مثل چوپایوں میں نہ پایا جارہا ہو جیسے ٹڈی یا چڑیا تو پھر اسکے لیے اختیار ہے کہ انکی قیمت کے مثل کھانا خریدکے مسکینوں کو کھلاے یا ہر دو مدوں کے بدلے ایک روزہ رکھے جس کی قیمت دو عادل آدمی مقرر کریں۔
حج اور عمرہ میں نکاح کا عقد کرنا ٹھیک نہیں ہے اور نہ ہی اسمیں فدیہ ہے۔
چوپایوں میں سے جو بیت اللہ کی طرف اللہ کی رضا حاصل کرنے کیلئے ہانکا جائے یا تمتع اورقران اور احصار کی وجہ سے واجب ہوجائے۔
متمتع اور قارن پر ھدی واجب ہے اور وہ ایک بکری یا اونٹ یا گائے کا ساتواں حصہ ہےاگر یہ نہ میسر ہوں تو دس دن کے روزے رکھے جن میں سے تین تو دوران حج اور سات واپس گھر آنے پر اور یہ اس پر واجب ہے جو اھل مکہ میں سے نہ ہو، اگر اھل مکہ میں سے ہو تو اس پر نہ تو ھدی لازم ہے اور نہ روزے ۔
اللہ تعالیٰ کے قول کیوجہ سے: " تو جو شخص عمرے سے ليکر حج تک تمتع کرے بس اسے جو قربانی ميسر ہو اسے کر ڈالے جسے طاقت ہی نہ ہو وہ تين روزے حج کے دنوں ميں رکھ لے اور سات واپسی ميں يہ پورے دس ہوگئے يہ حکم ان کيلئے ہے جو مسجد حرام کے رہنے والے نہ ہوں "
اور وہ یہ ہے کہ جو حج افراد يا عمرہ کرنےوالا ثواب کی نیت سے دےیا متمتع یا قارن واجب پر زائد دے، یا جس کو بھیجا ہو غیر محرم نے مکہ کیطرف تاکہ اسکو اللہ کا قرب حاصل کرنے کیلئے ذبح کیا جائے، اور تحقیق " نبی اکرم ﷺ نے سو/100 اونٹوں کی قربانی کی تھی " [ يہ بخاری کی حديث ہے]
نفلی و تمتع و قران کی قربانی کرنے والے کیلئے اس میں سے کھاناجائز ہے ، بلکہ نفلی قربانی میں سے کھانا مستحب ہے ؛ حضور ﷺ کے عمل کیوجہ سے " آپﷺ نے حکم فرمایا کہ ہر اونٹ میں سے کچھ حصہ لیا جائےپھر اسے پکا کر اسکے شوربے میں سے پیا جائے " [ يہ ترمذی کی حديث ہے]
احصار وہ حج یا عمرہ یا دونوں کے پورا کرنے سے رکا جانا ہے۔
پس جس نے حج یا عمرہ کا احرام باندھا پھر اسکو دشمن نے بیت اللہ میں داخل ہونے سے روک دیا یا کوئی اور واقعہ پیش آگیا کہ وہ بیت اللہ تک نہ پہنچ سکا تو وہ ھدی کر اسی جگہ ذبح کرے، پھر اپنا احرام اتار دے ؛ اللہ تعالیٰ کے قول کی وجہ سے: " پس اگر تم روک دئیےجاو تو ھدی میں سے جو میسر ہو ادا کر و "
اور احصار کی ھدی ایک بکری یا اونٹ کا ساتواں حصہ یا گائے کا ساتواں حصہ ہے۔
تمتع اور قران اور تطوع کی ھدی حرم کی حدود کے اندر ذبح کی جائے گی۔ اور اسکے مسکینوں میں تقسیم کی جائے گی پس اگر حرام کی حدود سے باہر ذبح کیا تو ادائیگی نہیں ہو گی۔
اور احصار کی ھدی اسی جگہ ذبح کی جائے گی جہاں اسکو روکا گیا ہے۔
1- حج تمتع ، قران اور نفلی کی قربانی کا بیان
قربانی کا وقت نحر کے دن عید کی نماز کے بعد سے شروع ہوتا ہے ایام تشریق کے آخری دن غروب آفتاب تک ہوتا ہے ، اور وہ تیرہویں کا دن ہے۔
2- احصار کی قربانی
اسکا وقت احصار کے وقت سے ہے