فطرتی سنتیں
فطرتی سنتیں وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی فطرت میں شامل کر دی ہیں اور جب کوئی اس کو پورا کرے تو وہ اپنی بہترین ہیئت میں داخل ہو جاتا ہے -
فطرتی سنتیں
فطرتی سنتیں وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی فطرت میں شامل کر دی ہیں اور جب کوئی اس کو پورا کرے تو وہ اپنی بہترین ہیئت میں داخل ہو جاتا ہے -
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ"دس سنتیں فطرتی سنتیں ہیں - مونچھ کا کاٹنا،داڑھی کا بڑھانا، مسواک کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، ناخن کاٹنا، انگلیوں کے جوڑوں کو دھونا، بغل صاف کرن - "[اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]
مسواک کرنا
عود اور اس طرح کی لکڑیاں جو کہ اراک درخت سے لی جاتی ہیں دانتوں میں استعمال کی جاتی ہے - جو بو اور کھانے کی بقایاجات کو ختم کرتا ہے -
مسواک تمام اوقات میں مسنون ہے - آپ ﷺ کا ارشاد ہے"مسواک منہ کی صفائی ہے اور رب کی رضا کا سبب ہے "[اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے]
کیونکہ آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے "اگر میری امّت پر گراں نہ گزرتا تو نماز کے وقت مسواک کو فرض کر دیت"[ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے]
کیونکہ آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ"اگر میری امت پر گراں نہ گزرتا تو میں نماز کے وقت مسواک کو فرض کر دیتا "[یہ حدیث متفق علیہ ہے]
حضرت مقدام رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ"آپ ﷺ جب گھر میں داخل ہوتے تو کس چیز سے ابتداء کرتے ؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ "مسواک کرتے تھے"[ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ"آپ ﷺ جب رات کو جاگتے تھے تو مسواک کرتے تھے"[ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیاہے]
حضرت علی رضی اللہ عنہ مسواک کرنے کا حکم دیتے تھے، فرماتے تھے کہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے "جب کوئی شخص مسواک کر کے نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو فرشتہ بھی اس کے پیچھے کھڑا ہو جاتا اور اسکی قراءت کو سنتا ہے اور اس کے قریب ہو جاتا (یا اس طرح کا کوئی اور لفظ استعمال کیا) یہاں تک کہ فرشتہ اپنا منہ اس کے منہ پر رکھ دیتا ہے اور جو کچھ قرآن کی تلاوت میں سے اسکے منہ سے نکلتا ہے وہ فرشتے کے پیٹ میں چلا جاتا ہے - پس تم اپنے منہ کو صاف کرو قرآن کے لیے "[اس حدیث کو امام بزار نے روایت کی ہے]
مسواک کے بہت سے فوائد ہیں - دنیا میں یہ منہ کی صفائی ہے اور آخرت میں رب کی رضا ہے اور دانتوں کو مضبوط کرتا ہے اور جبڑوں کو سخت کرتا ہے اور آواز کو صاف اور بندے کو چست کرتا ہے -
کلی کرنا
کلی کرنا
ناک میں پانی ڈالنا
سانس کے ساتھ پانی کو ناک میں کھینچن -
استنجاء
قبل یا دبر سے نکلی ہوئی نجاست
قص سے مراد مونچھوں کے کاٹنے میں مبالغہ کرنا ہے کیعنکہ مونچھوں کو کاکاٹنے میں زیادہ خوبصورتی ہے اور یہ عمل کفار کے خلاف بھی ہے -
اوروہ داڑھی کا مطلق چھوڑنا ہے -
داڑھی مونڈنا حرام ہے کیونکہ اس کے مطلق رکھنے کا حکم وارد ہوا ہے - " آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ مونچھ میں [مونچھ کاٹو] کمی کرو اور داڑھیاں بڑھاؤ [داڑھیاں بڑھاؤ اور داڑھیوں میں ہر قسم کی تبدیلی سے پرہیز کرو] ، مجوسیوں کی مخالفت کرو "[ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]
شرمگاہ کے بالوں کو صاف کرنا
شرمگاہ کے اردگرد بالوں کو مونڈنا
سائنسی تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ شرمگاہ کے بالوں کو صاف کرنا جسم کی صحت کی ضامن ہے کیونکہ ان جگہوں میں بال رکھنا بعض اوقات جلد کے امراض کا سبب بن سکتا ہے -
عضو تناسل کا ختنہ کرنا
ختنے سے مراد مرد کے ذکر کو جو جلد ڈھانپ کر رکھنا ہے اس کا کاٹنا
عورت کا ختنہ کرنا
مرد کے عضو تناسل کے داخل ہونے کی جگہ کے اوپر زائد گوشت کا کاٹنا
ختان مرد کے لیے اور خفاض عورت کے لیے ہوتا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا "ختنہ کراؤ کیونکہ آپ کے چہرے کی خوبصورتی اور خاوند کے لذت کا سبب ہے"[ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے]
مردوں کے لیے ختنہ کرانا واجب ہے اور عورتوں کےلیے سنت ہے -
مردوں میں ختنہ کی حکمت یہ ہے کہ یہ اس گندگی سے پاکی کا سبب ہے جو اس چمڑے میں ہوتی ہے جس نے مرد کے آلہ تناسل کو ڈھانپا ہوتا ہے - اور عورت میں اس کی حکمت یہ ہے کہ عورت کے چہرے کی خوبصورتی کا سبب ہے -
ناخنوں کے کٹوانے سے مراد ہے کہ ناخنوں کو بڑا نہ ہونے دیا جائے بلکہ اس سے پہلے ہی کاٹ دیے جائیں -
(نتف الابط) سے مراد بغل میں اگنے والے بالوں کو صاف کرنا ہے کیونکہ ان کو صاف کرنے کی وجہ سے پاکی حاصل ہوتی ہے اور اس بدبو کا خاتمہ ہوتا ہے جو ان بالوں کے ہوتے ہوئے انسان کے جسم میں ہوتی ہے -
البراجم
براجم انگلیوں کے ان جوڑوں کو کہتے ہیں جو ہتھیلی کی پشت پر ہوتے ہیں -
بعض علماء نے ان چیزوں کے ساتھ ان گندگیوں کو بھی ملایا ہے جو کان، گردن اور جسم کے دوسرے حصوں میں جمع ہوتی ہیں -
ناخنوں، بغل کے بالوں، زیر ناف بالوں اور مونچھوں کو چالیس دن سے زیادہ چھوڑے رکھنا یعنی نہ کٹوانا مکروہ ہے - حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ "رسول اللہ ﷺ نے ہمارے لیے مونچھوں اور ناخنوں کے کٹوانے، زیر ناف اور زیر بغل بال منڈوانے کا وقت مقرر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کو چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑا جائے"[ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]