زکات کی لغوی تعریف
زکات لغت میں نشونما اور اضافے کا نام ہے
زکات کی لغوی تعریف
زکات لغت میں نشونما اور اضافے کا نام ہے
زکات فقہ کی اصطلاح میں
مال کی اس مقدار کو کہتے ہیں جو خاص وقت میں خاص لوگوں کے لیے نکالا جاتا ہے
زکات اسلام کے فرائض میں سے ایک فریضہ ہے اور پانچ ارکان میں سے تیسرا رکن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا " اور نماز قائم کرواور زكات ادا کرو "
اور رسولؐ نے فرمایا "اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ کلمہ شہادت پڑھنا یعنی گواہی دینا کہ نہیں ہے معبود برحق مگر اللہ کی ذات اور حضرت محمدؐ اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زكات دینا اور بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھن "[ یہ حدیث متفق علیہ ہے]
زكات نہ دینے والے لوگ دو قسم کے ہوتے ہیں بعض لوگ بخل کی وجہ سے زكات ادا نہیں کرتے اور بعض لوگ زكات کی فرضیّت کے انکاری ہونیکی وجہ سے ادا نہیں کرتے۔
جس شخص نے زكات کی فرضیّت کا علم ہونے کے باوجود زكات کی فرضیّت سے انکار کیا تو اسکے کافر ہونے پر پوری امّت مسلمہ کا اجماع ہے کیونکہ اس نے اللہ اور اسکے رسولؐ کو جھٹلایا ہے۔
جس کسی نے بخل کی وجہ سے زكات ادا نہیں کی تو گناہ کبیرہ کے ارتکاب کے ساتھ ساتھ یہ رقم بلکہ اس سے زیادہ کسی اور ذریعے سے اس سے نکال لی جاتی ہے اور اسکی زكات بھی ادا نہیں ہوتی۔
رسولؐ اللہ زكات ادا نہ کرنے والے کے بارے میں فرماتے ہیں "ہر وہ آدمی جو اتنے سونے اور چاندی کا مالک ہو جس پر زکوٰہ واجب ہوتی ہے اور وہ زكات ادا نہ کرتا ہو تو اسکے لیے ان سے آگ کے تختے بنائے جائینگے اور ان کو جہنّم کی آگ میں گرم کر کے ان کے ذریعے اس کے دائیں بائیں جانب، پیٹھ اور پیشانی کو داغا جائے گا اور جب وہ ٹھنڈے ہو جائیں گے تو دوبارہ گرم کر کے داغا جائے گا۔ ایک دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہو گی؛ یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ ہو جائیگا اور ان کو انکا راستہ دکھا دیا جائے گا (یا جنّت کی طرف یا جہنّم کی طرف) اور اگرکوئی زكات نہ دینے کی وجہ سے لڑائی پر اتر آیا تو اسکے ساتھ قتال کیا جائیگا۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دے اور زكات ادا کرنا شروع کردے "[اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]
کیونکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں " اگر انہوں نے توبہ کرلی اور نماز قائم کرنا اور زكات ادا کرنا شروع کردی۔ پس انکے راستے خالی کردو۔ بے شک اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے "
اور رسولؐ اللہ کے قول کی وجہ سے "مجھے حکم دیا گیا کہ میں لوگوں کے ساتھ اس وقت تک جہاد کروں جب تک وہ کلمہ نہیں پڑھ لیتے اور نماز اور زكات کیا ادائیگی نہیں شروع کر دیتے۔ اور اگر انہوں نے یہ کر لیا تو انہوں نے اپنے خون اور مالوں کو اسلام کی وجہ سے محفوظ کر لیا اور انکا حساب اللہ پر ہے "[ یہ حدیث متفق علیہ ہے]
اور حضرت ابوبکر رضي الله عنه نے مانعین زكات کے ساتھ جہاد کیا تھا اور فرمایا "خدا کی قسم میں ضرور جہاد کرونگا اسکے ساتھ جو نماز اور زكات کے درمیان فرق کرے گا۔ بے شک زكات مال کا حق ہے اور خدا کی قسم اگر انہوں نے ایک بھی رسی (جو وہ رسولؐ اللہ کو زكات میں دیتے تھے) کو زكات میں دینے سے انکار کر دیا تو میں انکے ساتھ اسکو روکنے اور زكات میں نہ دینے کی وجہ سے جہاد کروں گا۔ " [ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]
1- غلطیوں گناہوں اور بخل سے انسانی نفوس کو پاک کرنا، اللہ عزّوجل فرماتے ہیں " اے محمدؐ ان کے اموال میں سے صدقہ لو جو کہ ان کو گناہوں سے پاک کر دے گ "
2۔ مال میں زیادتی، پاکی اور برکت کےلیے کیونکہ رسولؐ اللہ فرماتے ہیں "صدقہ مال میں سے کچھ بھی کم نہیں کرت "[اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]
3۔ اللہ کے احکام کی فرمانبرداری میں بندے کا امتحان لینے کے لیے اور یہ جاننے کے لیے کہ بندہ اللہ کی محبّت کومال کی محبّت پر ترجیح دیتا ہے یا نہیں؟
4۔ فقیر سے ھمدردی کے لیے اور غریبوں کی حاجت روی کے لیے اور یہی وہ چیز ہے جس سے انسانوں کے درمیان محبّت پیدا ہوتی ہے اور اجتماعیّت کی ایک بہترین مثال قائم ہوتی ہے۔
5۔ اور اللہ عزّوجل کے راستے میں خرچ کی عادت ڈالنے کے لیے۔
1۔ زكات کی ادائیگی اللہ کی رحمت کے حصول کا سبب ہے۔اللہ عزّوجل فرماتے ہیں۔ " تو وہ رحمت ان لوگوں کے نام ضرور لکھوں گا جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور زكات ادا کرتے ہیں "
2۔ زكات کی ادائیگی اللہ کی نصرت اور مدد کے حقدار ہونے کی شرط ہے۔ اللہ عزّوجل فرماتے ہیں " اور اللہ مدد کرتے ہیں ان لوگوں کی جو اللہ کی مدد کرتے ہیں۔ بے شک اللہ طاقتور اور غالب ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں اگر ہم زمین میں ان کے پاؤں جما دیں تو وہ نماز قائم کریں اور زكات ادا کریں، نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں اور تمام کاموں کا انجام اللہ عزّوجل کے اختیار میں ہے "
3۔ زکوٰہ اور اسکی ادائیگی انسان کے گناہوں اور غلطیوں کا کفارہ ہوتی ہے۔ رسولؐ اللہ فرماتے ہیں "صدقہ گناہ کو اس طرح ختم کردیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتی ہے یعنی ختم کر دیتی ہے "[ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے]
1-زمین سے نکلنے والی چیز کی زکوٰۃ |
2-نقدی مال کی زکوٰۃ(سونے کی تصویر&چاندی کی تصویر) |
3-سامان تجارت کی زكات |
4-چوپائے جانوروں کی زکوٰۃ |
کافر زكات نہیں دے سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کافروں کے اعمال قبول نہیں کرتا۔
غلام پر زكات واجب نہیں ہے کیونکہ اسکا مال اسکے مالک کا مال ہوتا ہے۔
نصاب کس کو کہتے ہیں۔
نصاب مال کی معلوم مقدار کو کہتے ہیں۔ جب مال اس مقدار کو پہنچ جائے تو زکوٰ ۃ واجب ہو جاتی ہے۔
ا۔ جن ضروریات کے بغیر انسان کا چارہ نہیں، جیسے کھانے پینے کی چیزیں، پہننے یعنی لباس اور سکونت کی جگہ سے زائد مال کو نصاب کہتے ہیں۔ کیونکہ زكات غریبوں کے ساتھ ہمدردی کے لیے واجب ہوئی ہے تو اسکےلیے ضروری ہے کہ زكات دینے والا محتاج نہیں ہونا چاہیے۔
ب۔ دوسری شرط یہ ہے کہ نصاب پر ایک خاص آدمی کی پوری ملکیّت ہونی چاہیے یعنی وہ مال جو کسی خاص آدمی کی ملکیّت نہ ہو اس پہ زكات نہیں ہے۔ مثال کے طور پر وہ مال جو مسجد بنانے کےلیے جمع کیا گیا ہوتا ہے، وہ مال جومصالح عامہ کے لیے خاص کیا گیا ہوتا ہے یا وہ مال جو فلاحی تنظیموں کی صندوقوں میں پڑا ہوتا ہے۔
سال
(حول )پورے ہجری سال کو کہتے ہیں۔
جب نصاب پر مالک کی ملکیّت کے پورے بارہ مہینے گزر جائیں تو اسکو( حول) کہتے ہیں۔ اور سال کا گذرنا سونے، چاندی، تجارت کے مال، اونٹ، گائے، بیل اور بکریوں پہ شرط ہے۔ البتہ کھیتی، پھلوں، معدنیات اور خزانوں میں سال کا گذرنا شرط نہیں ہے۔