زمین سے نکلی ہوئی چیزیں
ہر وہ چیز جو زمین سے نکلے اور اس سے فائدہ اٹھانا ممکن ہو تو اس پہ زكات واجب ہے
زمین سے نکلی ہوئی چیزیں
ہر وہ چیز جو زمین سے نکلے اور اس سے فائدہ اٹھانا ممکن ہو تو اس پہ زكات واجب ہے
زمین سے نکلنے والی چیزیں دو قسم کی ہیں: دانے اور پھل، معدنیات اور خزانے
دانے
دانوں سے مراد ہر وہ دانہ ہے جو ذخیرہ کیا گیا ہو جیسے جو اور گندم کے دانے اور ان دونوں کے علاوہ اور دانے وغیرہ۔
پھل
ہر وہ پھل جو ذخیرہ کیا گیا ہو جیسے کھجور، خشک انگور یعنی کشمش اور بادام وغیرہ۔
پھلوں اور دانوں پر زكات واجب ہے کیونکہ اللہ فرماتے ہیں " اور جب یہ مختلف درخت پھل دار ہو جائیں تو پھلوں کے کاٹتے ہی اس میں سے زكات ادا کرو "
اور رسولؐ اللہ فرماتے ہیں " اس زمین میں عشر ہے جسکو بارش، چشمے اور نہروں کا پانی سیراب کرے اور بیسواں حصّہ یعنی آدھا عشر ہے اس زمین میں جسکو حوض کے پانی سے سیراب کیا جاتا ہو "[ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]
گیا ہو اگر اسکو ذخیرہ نہ کیا گیا ہو بلکہ روز مرّہ کی استعمال کے لیے ہو تو اس میں زكات نہیں ہے کیونکہ اسکی مالیّت پوری نہیں ہوتی اس لیے کہ اس سے مالی فائدہ حاصل نہیں کیا جا تا ۔
یعنی ان پر مطلقاً زكات واجب نہیں بلکہ ایک مقدار تک پہنچنے کے بعد ان پر زكات ہے کیونکہ رسولؐ اللہ فرماتے ہیں " دانوں اور کھجوروں میں اس وقت تک صدقہ نہیں ہے جب تک انکی مقدار پانچ وسق تک نہ پہنچ جائے "[ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]
ور اگر وہ مکیلات میں سے نہ ہوں جیسے سبزیاں، تو ان پہ زكات نہیں ہے
خودبخود اگنے والی چیزوں پہ زكات نہیں ہوتی۔
رسولؐ اللہ کے " قول کی وجہ سے دانوں اور کھجوروں میں اس وقت صدقہ نہیں ہے جب تک ان کی مقدار پانچ وسق تک نہ پہنچ جائے۔ "[اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے] پس نصاب 300 نبوی صاع
ہوگا اور یہ بہترین گندم کے 612 کجم کے برابر ہے۔ نصاب پورا کرنے کے لیے ایک جنس سے تعلق رکھنے والی چیزوں کو ملا لیا جائے گا۔
مثال کے طور پر نصاب پورا کرنے کے لیے کھجوروں کی مختلف اقسام کو ملا لیا جائے گا لیکن مختلف اجناس سے تعلق رکھنے والی چیزوں کو آپس میں نہیں ملایا جائے گا۔
مثال کے طور پر گندم کو جو کے ساتھ اور گندم کو کھجور کے ساتھ نہیں ملایا جا سکتا۔
جب دانے سخت ہو جائیں تو ان پر زكات واجب ہو جاتی ہے۔ اور پھل جب کھانے کے قابل ہو جائیں تو ان پر زكات واجب ہو جاتی ہے۔ اور جس کسی نے پھل اور دانے زكات واجب ہونیکے بعد بیچ دیے تو زكات بیچنے والے پر واجب ہے کیونکہ زكات کے وجوب کے وقت وہ ہی مالک تھا۔
1۔ ان زمینوں سے نکلنے والی چیزوں میں عشر ہے جو بغیر تکلیف اور محنت کے سیراب ہوتی ہوں جیسے بارشوں اور چشموں سے سیراب ہونے والی زمینیں۔
2۔ ان زمینوں میں نصف عشر یعنی بیسواں ہے جو محنت اور مشقّت سے سیراب ہوتی ہوں جیسے کنوؤں اور حوضوں سے سیراب ہونیوالی زمینیں۔
3۔ وہ زمینیں جو دونوں سے سیراب ہوتی ہوں یعنی کبھی بارش اور چشمے سے سیراب ہوتی ہوں اور کبھی حوضوں اور کنوؤں سے ہوتی ہوں،ان میں تین ربع عشر ہے یعنی (7.5%) عشر ہے۔
اس پر دلیل رسولؐ اللہ کا وہ قول ہے جس میں فرماتے ہیں " جس زمین کو بارش، نہروں اور چشموں سے سیراب کیا جاتا ہو اس میں عشر ہے اور جس کو اونٹ کے ذریعےپانی نکال کر سیراب کیا جاتا ہو، اس میں نصف عشر ہے "[ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]
اگر دانے اور پھل خودبخودضائع ہو گئے تو ان پر زكات نہیں ہے۔اور اگر زكات واجب ہونے کے بعد قصدا اور تجاوزا انکو ضائع کی گیا ہو تو زكات ساقط نہیں ہو گی بلکہ اسکا ادا کرنا واجب ہوگا۔
ابن عبد البر رحمه الله جمہور سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ " شھد میں زكات نہیں ہے اور یہ ٹھیک بات بھی ہے کیونکہ شھد پہ زكات کے وجوب پر نہ قرآن میں کوئی دلیل ہے اور نہ ہی سنّت رسولؐ میں اور اصل ہر چیز میں زکوٰہ کا واجب نہ ہونا ہے جب تک کہ زكات کے وجوب پر دلیل قائم نہ ہو جائے "
معدنیات
معدنیات ان چیزوں کو کہتے ہیں جو زمین کی جنس میں سے نہیں ہوتیں اور زمین سے نکلتی ہیں۔ جیسے سونا، چاندی،لوہا،جواھرات اور وہ خام مال جو زمین سے نکلتا
خزانے
خزانہ اس مال کو کہتے ہیں جسکو انسان اپنے ہاتھ سے زمین میں دفن کر دیتا ہے جیسے سونا چاندی وغیرہ
معدنیات اور خزانوں پہ زكات واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے " اے ایمان والو ان پاک اموال میں سے جو تم کھاتے ہو اور جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالا ہے "
اور رسولؐ اللہ فرماتے ہیں " اور خزانوں میں خمس یعنی پانچواں حصہ نکالا کرو "[ یہ حدیث متفق علیہ ہے]
خزانہ کی زكات میں کوئی شرط نہیں ہے۔ جب انسان اسکا مالک بن جائے تو اسے چاہیے کہ وہ زكات ادا کرے۔
معدنیات اور خزانے چاہےتھوڑے ہون یا زیادہ انکا پانچواں حصّہ زكات میں دینا واجب ہے کیونکہ رسولؐ اللہ کے قول میں ہے کہ آپؐ فرماتے ہیں " خزانے میں خمس ہے " [ یہ حدیث متفق علیہ ہے]