کسی چیز سے رکنا اور اپنے آپ کو روکنا
کسی چیز سے رکنا اور اپنے آپ کو روکنا
اللہ کی عبادت کی غرض سے فجر کے طلوع ہونے سے لیکر غروب تک کھانے پینے اور جماع سے رکنا۔
" اے ایمان والو! روزے تم پر فرض کیے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھے شائد کہ تم متّقی بن جاؤ۔ رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اتارا گیا ہو وہ لوگوں کے لیے یہ آیت ہے اور ہر آیت اور حق و باطل میں فرق کرنے والے دلائل ہیں۔ جس کے پاس یہ مہینہ آئے وہ روزہ رکھے۔ "
روزے کی اتنی فضیلت اور اتنا دوگنا ثواب ہے کہ اللہ نے اسکو اپنی طرف منسوب کیا ہے۔
ایک حدیث قدسی میں حضرت ابوہریرہ رضي الله عنه سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا " ابن آدم کا ہر عمل دوگنا ہو تا ہے۔ نیکی کا اجر دس سے لیکر سات سو گنا تک جاتا ہے۔ " اللہ عزّوجل نے فرمایا "روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اسکا اجر دوں گا کیونکہ اس میں میرا بندہ اپنی شہوت اور کھانے پینے کو میری وجہ سے چھوڑ دیتا ہےروزے داار کے لیے دو خوشیاں ہیں ایک خوشی اسکے افطار کے وقت اور دوسرے اپنے رب سے ملاقات کے وقت اسکے منہ کی بو اللہ کو کستوری کی خوشبو سے زیادہ پسندیدہ ہے "[ متفق علیہ ہے]
1۔ اللہ سے ڈرتے ہوئے اسکے حکم کو بجا لانا اور اسکی مشروعیت کے لیے جھک جانا۔ اللہ نے فرمایا " شاید کہ تم متّقی بن جاؤ "
2۔ نفس کو صبر کا عادی بنانا، شہوت کے غلبے کے وقت ارادے کو مضبوط بنانا۔
3۔ انسان کو نیکی کا عادی بنانا کیونکہ جب وہ بذات خود بھوک کے تجربے سے گذرے گا تو اس طرح اسکو محتاجوں اور فقیروں کا زیادہ احساس ہو گا۔
4۔ جسماتی طور پر روزوں سے راحت اور عافیت ملتی ہے۔
روزہ جسکو اللہ نے مشروع کیا ہے اسکی دو قسمیں ہیں۔
دو قسمیں:
1۔ وہ روزے جنکو اللہ نے شروع ہی سے واجب کیا وہ رمضان کے روزے ہیں اور وہ اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہے۔
2- وہ روزے جنکو بندہ کسی سبب سے اپنے اوپر واجب کرتا ہے جیسے نذر اور کفارات کے روزے۔
ہر وہ روزہ جسکو شارع یعنی اللہ نے اسکے کرنے کو مستحب کیا ہے جیسے پیر اور جمعرات کے روزے اور ہر مہینے کے تین روزے، دسویں مہینے کے روزے، زی الحجہ کے پہلے دس دنوں کے روزے اور عرفہ کے دن کے روزے۔
1۔ اسلام: کافر پر روزہ واجب نہیں ہے۔
2۔ بالغ پن: بچے پر واجب نہیں ہے، ہاں جب وہ روزے کی طاقت رکھتا ہو تو اسے حکم دیا جائیگا تاکہ وہ اسکا عادی ہو جائے۔
3۔ عقل: پاگل پر روزہ واجب نہیں ہے۔
4۔ قدرت: عاجز یعنی جس کو قدرت نہ ہو تو اسکے لیے ضروری نہیں ہے۔
رمضان کے روزے اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہے کیونکہ اللہ نے اسکو اپنے بندے پر فرض کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: " اے ایمان ولو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھے "۔
اور رسول اللہﷺ اللہ نے فرمایا " اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے اور اس میں سے رمضان کے روزہ کا بھی ذکر کیا "[اس کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]
1۔ رمضان کے روزے اور قیام پچھلے سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا " جس نے رمضان کا روزہ ایمان اور احتساب کی حالت میں رکھا، اسکے پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے "[متفق علیہ ہے]
اور آپﷺ نے فرمایا " جس نے رمضان میں قیام کیا ایمان اور احتساب کی حالت میں تو اسکے پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے "[متفق علیہ ہے]
2۔ جو شخص لیلۃ القدر کی رات قیام کرے،پچھلے سارے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے " جس نے رمضان کے روزے ایمان اور احتساب کے ساتھ رکھے، اسکے پچھلے سارے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ جو شخص لیلۃ القدر کو ایمان اور احتساب کے ساتھ قیام کرے اس کے پچھلےگناہ معاف کرے دیے جاتے ہیں۔ "[متفق علیہ ہے]
3۔ رمضان میں عمرہ کرنا نبی اکرمﷺ کے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے۔ آپؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ " رمضان میں عمرہ کرنا حج کے برابر ہے یا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے "[اس کے امام مسلم نے روایت کیا ہے]
4۔ رمضان کے مہینے میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے اور نفس نیکی کے کاموں پر راضی ہوتا ہے۔
آپﷺ نے فرمایا " جب رمضان کا مہینہ داخل ہوتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیطان کو جکڑ دیا جاتا ہے " [متفق علیہ ہے]
تو انسان پر واجب ہے کہ وہ توبہ کی طرف جلدی کرے اور منکرات سے دور رہے۔
5۔ اللہ کی طرف متوجہ ہونا کیونکہ رمضان کا مہینہ قرآن کا مہینہ کہلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہ ے" رمضان کا مہینہ جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے لوگوں کے لیے ہدایت ہے "
تو آپﷺ پرجبرائیلؑ قرآن پیش کرتے تھے جب جبرائیلؑ آپؐ سے ملتے تھے تو آپ ؐ کی سخاوت بڑھ جاتی تھی۔
6۔ رمضان کا مہینہ سخاوت، خرچ کرنا اور صدقہ کرنے کا مہینہ ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے " ہیں رسولؐ اللہ بھلائی میں لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور رمضان کے مہینے میں سخاوت بڑھ جاتی تھی۔ بے شک جبرائیلؑ ہر سال رمضان میں آپؐ سے ملتے تھے "۔ [متفق علیہ ہے]
رمضان کا مہینہ چاند دیکھنے کے ساتھ ہی داخل ہو جاتا ہے جب انتیسویں شعبان کو غروب آفتاب کے بعد چاند نظر آ جائے تو رمضان شروع ہو جاتا ہے
اور اگر انتیسویں شعبان کو چاند نظر نہ آئے یا بادل اور گرد وغیرہ ہو تو شعبان کامہینہ پورا ہونے کے بعد رمضان شروع ہو گا کیونکہ آپؐ کا ارشاد گرامی ہے " چاند کے دیکھتے ہی روزہ رکھو اور چاند کے دیکھتے ہی افطار کرو اور اگر چاند نظر نہ آئے تو تیس دن پورے کرو "[ متفق علیہ ہے]
رمضان کا روزہ چھوڑنا حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔ جس نے بغیر مجبوری کے روزہ چھوڑا اور توبہ بھی نہیں کی تو ساری زندگی روزے رکھتا رہے، اسکی کفایت نہیں کریگا۔
آپؐ نے فرمایا " جس نے رمضان کا روزہ بغیر کسی رخصت کے جو اللہ نے دی، چھوڑا تو زمانے بھر کے روزے اسکی قضاء نہیں بن سکتے " [اسکو امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے]
روزے کے چھوڑنے کا انجام بہت بڑا ہے۔ ابوامامہ باھلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ " میں نے رسولاللہﷺ سے سنا ہے کہ میں سو رہا تھا کہ اچانک دو آدمی کندھے سے پکڑ کر ایک دشوار پہاڑی کے پاس لے گئے اور مجھے کہا کہ اس پہاڑ پر چڑھو تو میں نے کہا میں میں اس پر چڑھنے کی طاقت نہیں رکھتا تو انہوں نے کہا ہم تمہارے لیے آسان کر دیں گے، میں اس پہاڑی پر چڑھا یہاں تک کہ میں اسکے درمیان میں تھا اس وقت میں نے کچھ عجیب آوازیں سنی، میں نے پوچھا کہ یہ آوازیں کیسی ہیں؟ تو انہوں نے کہا یہ اھل جہنم کی چیخ و پکار ہے۔ میں آگے چلا یہاں تک کہ میرا گزر ایسی قوم پر ہوا جو ایڑیوں کے بل لٹکائی ہوئی تھی اور ان کے جبڑے پھٹے ہوئے تھے اور اس سے خون ٹپک رہا تھا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں تو انہوں نے کہا یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے روزوں کو پورا ہونے سے پہلے افطار کر دیتے تھے "[ابن حبان نے اسکو روایت کیا ہے]
ابن قیم رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں” رمضان کے مہینے رسول اللہﷺ کا طریقہ: مختلف عبادات کی کثرت اور جبرائیلؑ آپؐ کو رمضان میں قرآن دہراتے تھے اور جب جبرائیلؑ آپؐ سے ملتے تو آپؐ کی سخاوت چلنے والی ہواؤں سے بھی بڑھ جاتی تھی اس میں آپؐ صدقہ، احسان، قرآن کی تلاوت، نماز اور ذکر اور اعتکاف کثرت سے کرتے تھے اور رمضان میں عباد کو باقی مہینوں کی عبادت سے خاص کرتے تھے حتیٰ کہ کبھی کبھی اس میں لگے رہتے یہاں تک کہ اپنا دن رات عبادت میں گذار دیتے تھے” [المعاد فی ھدی خیر العباد (30/2)]
رمضان میں فضیلت والے اوقات جیسے کہ وہ راتیں جن میں لیلۃ القدر کو تلاش کیا جاتا ہے ان راتوں میں تلاوت قرآن کی کثرت کرنا ان اوقات کو غنیمت جانتے ہوئے۔
امام بخاری رمضان کی پہلی رات سے اپنے دوستوں کے ساتھ بیس رکعت ادا کرتے اور ہر رکعت میں بیس آیات کی تلاوت کرتے یہاں تک کہ پورا قرآن ختم کر دیتے اور سحری کے وقت نصف یا ثلث قرآن کی تلاوت فرماتے اور افطار کے وقت قرآن کو ختم کر دیتے اور فرماتےکہ کہ ہر ختم قرآن کے بعد ایک مقبول دعا ہے۔ [صفۃ الصفوۃ (170/4)]
اور امام شافعی سے مروی ہے کہ امام بخاری 20 قرآن ختم کرتے تھے اور یہ نماز کی قراءت علاوہ ہے۔ [صفة الصفوة(2/255)]
شائب بن یزید رضي الله عنه سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بیس رکعات ادا کرتے تھےا ور سو سے زیادہ آیات کی تلاوت ہوتی تھی اور انکی ایڑیوں پر ورم آجاتا تھا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی صحابہ کرام کا یہی حال تھا۔ [اخرجہ البیھقی فی السنن الکبری (699/2)]
حضرت عبداللہ بن ابوبکر رضي الله عنه سے روایت ہے کہ وہ وہ فرماتے ہیں میں نے اپنے والد سے سنا کہ ہم جب رمضان میں مسجد سے لوٹتے تھے تو اپنے خادمین سے کھانا طلب کرنے میں جلدی کرتے تھے کہ فجر کی نماز نہ نکل جائے۔ [موطاء مالک ت عبدالباقی (116/1)]
حضرت نافع اور حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اپنے گھر میں قیام کر رہے تھے، یہاں تک کہ لوگ مسجد سے نکلے اور پانی کا ایک برتن ساتھ لیا اور پھر رسول اللہﷺ کی مسجد کی طرف نکل جاتے اور صبح کی نماز تک کوئی بھی باہر نہ نکلتا۔ [البیھقی فی السنن الکبری (696/2)]