حیض، نفاس اور استحاضۃ

43912

الحیض

حیض کی تعریف

حیض لغت میں

کسی چیز کے بہنے اور جاری رہنے کو کہتے ہیں

حیض شریعت کی اصطلاح میں

صحت کی حالت میں خاص اوقات میں بغیر سبب کے عورت کے رحم سے نکلنے والے خون کو کہتے ہیں۔

حیض کے خون کی خاصیت اور صفت

حیض کا خون کالا، سیاہ ہوتا ہے گویا کہ جلا ہوا ہے، بدبودار ہوتا ہے اور عورت اس کے خروج کے وقت سخت گرمی محسوس کرتی ہے۔

حیض کی عمر

حیض کے خون کے شروع ہونے کی کوئی مقرر عمر نہیں ہے۔ پس یہ عمر عورت کی طبیعت، معاشرے اور موسم کے اعتبار سے مختلف ہوتی رہتی ہے۔ پس جب بھی عورت کو حیض کا خون آجائے تو وہ حائضہ ہے۔

حیض کی مدت

حیض کی کوئی مقررہ مدت نہیں ہے۔ پس بعض عورتوں کو تین دن اور بعض کو چار دن حیض آتا ہے اور اکثر عورتوں کو چھ یا سات دن حیض آتا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا کو فرمایا ان کو بہت زیادہ دن حیض آتا تھا "آپ چھ یا سات دن حیض شمار کیا کریں اور پھر غسل کر لیا کریں"[ اس حدیث کو امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے]

مسائل

1۔ حاملہ عورت کو حیض نہیں آتا اگر اس کو وضع حمل سے تھوڑا سا پہلے خون آگیا اور ساتھ لوتھڑا بھی نکل گیا یہ نفاس ہے اور اگر لوتھڑا نہ نکلا یا وضع حمل سے بہت پہلے خون آگیا یہ حیض کا خون شمار ہوگا۔

2۔ اگر عورت کو اپنی عادت سے ہٹ کر خون آیا یعنی پہلے اس کو مہینے کے شروع میں خون آتا تھا پھر آخر میں آیا یا پہلے چھ دن آتا تھا پھر سات دن آیا تو عورت کو چاہیے کہ وہ اس کی طرف نہ دیکھے بلکہ جب بھی اس کو خون آئے تو وہ حیض ہے اور جب خون رک جائے تو یہ پاکی/طہر ہے۔

3۔ عورت کا طہر سفید پانی کے نکلنے سے پہچانا جاتا ہے اگر سفید پانی نہ نکلا تو پھر خشکی اس کی نشانی ہے یعنی سفید روئی اپنی شرمگاہ میں رکھے اگر وہ خشک رہی تو مطلب ہے کہ حیض کا خون رک گیا ہے اور طہر شروع ہو گیا ہے۔

حیض کے احکام

1۔ کدرۃ اور صفرۃ کا حکم

کدرۃ اور صفرۃ کی تعریف
الصفرہ:

پیلے خون کو کہتے ہیں جو عورت سے نکلتا ہے۔

والکدرۃ:

سیاہ اور پیلے کے درمیان والے رنگ کے خون کو کہتے ہیں۔

کدرۃ اور صفرۃ کا حکم

جب عورت کو پیلے رنگ کا یا خاکی رنگ کا یا صرف نمی نظر آجائے تو یہ دو حالتوں سے خالی نہیں ہو گا۔

1۔ یا تو یہ چیزیں حیض کے زمانے میں نظر آئیں گی یا حیض سے متصل طہر سے پہلے نظر آئینگی۔

اس حالت میں یہ چیزیں حیض کے حکم میں ہو ں گی، کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں " کہ عورتیں ان سے پیلے کپڑے کے بارے میں پوچھتیں تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتیں، جلدی نہ کریں یہاں تک کہ سفید پانی نظر آجائے"اس سے ان کی مرادطہر تھی "[ اس حدیث کو امام مالك نے روایت کیا ہے]

2۔ یا یہ چیزیں طہر میں نظر آئیں گی۔

اس حالت میں ان کو کچھ بھی شمار نہیں کیا جائے گا اور ان کی وجہ سے وضو اور نہ ہی غسل واجب ہو گا کیونکہ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں "ہم پیلے اور خاکی خون کو طہر کے بعد کچھ بھی نہیں شمار کرتے تھے" [ اس حدیث کو امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے]

طہر کی نشانی کی تصویر
صفرہ یعنی پیلے خون کی تصویر
کدرۃ یعنی خاکی خون کی تصویر

2۔ حیض کےخون کے رکنے کا حکم

جب عورت کو ایک دن خون آئے اور ایک دن نہ آئے تو اس کی دو حالتیں ہیں۔

1۔ پہلی حالت یہ ہے کہ یہ حالت ہمیشہ جاری رہے۔

اور یہ استحاضہ کا خون ہے

2۔ دوسری حالت یہ ہے کہ کبھی کبھی ایسے ہو۔

یعنی بعض وقت خون آئے اور بعض وقت بالکل رک جائے تو اس کا حکم مندرجہ ذیل ہے۔

ا۔ اگر ایک دن سے کم خون رکا رہا تو یہ مدت حیض میں شمار ہو گی۔

ب۔ اگر طہر کے وقت اسے سفید پانی نظر آگیا تو یہ طہرکہلائے گا اگرچہ تھوڑی ہی مدت کیوں نہ ہو۔

الاستحاضہ

استحاضہ کی تعریف

الاستحاضہ

جس عورت کی شرمگاہ سے مسلسل خون بہہ رہا ہو یا تھوڑی دیر کے لیے رک جائے اور پھر بہنا شروع ہو جائے تو اس کو استحاضہ کہتے ہیں۔

حیض اور نفاس کے خون کے درمیان فرق

حیض کا خون استحاضہ کا خون
کالے رنگ کا گاڑھا ہوتا ہے سُرخ رنگ کا پتلا خون ہوتا ہے۔
بدبودار ہو تا ہے استحاضہ کے خون میں کوئی بدبو نہیں ہوتی
حیض کا خون جمتا نہیں وہ جم جاتا ہے
رحم کی انتہا سے نکلتا ہے۔ رحم کی ابتدا یعنی شروع سے نکلتا ہے
صحت اور طبیعت کا خون ہے یعنی بیماری کی وجہ سے نہیں نکلتا۔ بیماری اور عدم صحت کی وجہ سے یہ خون آتا ہے۔
خاص اوقات میں نکلتا ہے۔ اس کے کوئی خاص اوقات نہیں ہوتے۔

مستحاضہ عورت کے احوال

پہلی حالت یہ ہے کہ استحاضہ کے خون سے پہلے اس کی حیض میں مقرر اور خاص عادت تھی

تو اس صورت میں اس کی عادت کے مطابق یعنی جتنے دن اس کو پہلے حیض آتا تھا اس کو حیض شمار کیا جائے گا اور باقی کو استحاضہ کا خون شمار کیا جائے گا کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے کہا "اے اللہ کے رسولﷺ میں پاک نہیں ہوتی یعنی مجھے مسلسل خون آتا تھا، کیا میں نماز نہ پڑھوں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے کہا نہیں یہ رگ ہے البتہ جتنے دن آپ کو پہلے حیض آتا تھا اتنے دن آپ نماز چھوڑ دیا کرو پھر غسل کر لیا کرو اور نماز پڑھ لیا کرو"[ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]

دوسری حالت یہ ہے کہ اس کی حیض کے خون کے حوالے سے کوئی خاص عادت تو نہ ہو البتہ وہ حیض اور استحاضے کے خون میں فرق کر سکتی ہو۔

اس صور ت میں وہ تمیز اور فرق پر عمل کرے گی۔ حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے کہ ان کو استحاضہ کا خون آتا تھا تو اس سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "جب آپکو کالا سیاہ خون آئے تو یہ حیض ہے تو اس کے آنے کے وقت آپ نماز نہ پڑھنا اور جب اس کے علاوہ خون آئے تو وضو کر لینا اور نماز پڑھنا کیونکہ یہ حیض کا خون نہیں ہے بلکہ رگ ہے یعنی استحاضہ کا خون ہے"[ اس حدیث کو امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے]

تیسری حالت یہ ہے کہ نہ اس کی کوئی عادت مقرر ہو اور نہ ہی وہ تمیز اور فرق کر سکتی ہو۔

پس یہ عورت عام عورتوں کی عادت پر عمل کرے گی اور مہینے میں سے چھ یا سات دن حیض کو شمار کرے گی یعنی جس دن سے خون جاری ہونا شروع ہو گیا اس دن سے چھ یا سات دن حیض کے شمار کریگی اور باقی مہینہ استحاضہ کا خون شمار ہوگا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے

حضرت حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا سے فرمایا "پس آپ چھ یا سات دن حیض کے شمار کریں اس کے بعد غسل کر لیں یہاں تک کہ آپ کو یقین ہو جائے کہ آپ پاک ہو گئی ہو پھر 23 یا 24 دن نمازیں پڑھنا اور روزے رکھنا اور یہ دونوں کام آپ کےلیے جائز ہیں اور ہر مہینے میں اسی طرح کرنا جس طرح دوسری عورتیں کرتی ہیں یعنی حیض کے بعد جب پاک ہو جاتی ہیں تو غسل کرتیں ہیں اور نمازیں اور روزے رکھتیں ہیں"[ اس حدیث کو امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے]

چوتھی صورت یہ ہے کہ اس کی عادت بھی ہو اور وہ تمیز اور فرق بھی کر سکتی ہو۔

تو یہ عورت عادت پر عمل کرے گی کیونکہ عادت یادداشت کے زیادہ قریب ہے، تمیز سے البتہ اگر اسے عادت بھول گئی تو تمیز اور فرق پر عمل کرے۔

مسائل

1۔ اگر عورت کو حیض کے زمانے اور وقت کا علم ہو البتہ اس کو حیض کے دن بھول جائیں تو وہ عام عورتوں کی عادت کے مطابق اپنے دن شمار کریگی۔

2۔ اگر اس کو حیض کے دن تو یاد تھے البتہ حیض کا زمانہ بھول گئی یعنی یہ بھول گئی کہ حیض مہینے کے شروع میں آتا تھا یا آخر میں تو وہ شروع مہینے سے حیض کے دن شمار کرے گی اور اگر وہ کہے کہ درمیان مہینے میں اسے حیض آتا تھا لیکن تحدید یعنی معین نہ کر سکتی ہو تو بالکل نصف سے حیض کے دن گننا شروع کرے گی۔

3۔ اگر مستحاضہ عورت کے حیض کے دن گذر گئے تو وہ غسل کرے اور اپنی شرمگاہ میں کپڑا یا روئی وغیرہ رکھ لے اور اس پر طہر کے احکام جاری ہونگے پس وہ نماز پڑھے گی اور روزہ رکھے گی اور وضو کرنے کے بعد اگر اس کا خون بہتا ہے تو اس کا کوئی نقصان نہیں ہے کیونکہ وہ معذور ہے اور پاکی میں اس کی تین صورتیں ہیں۔

أ۔ پہلی یہ کہ ہر نماز کا وقت داخل ہونے کے فوراً بعد وہ اپنی شرمگاہ کو دھوئے ، کپڑوںکو نچوڑے اور وضو کرے کیونکہ رسول اللہﷺ نے حضرت فاطمہ بنت جحش رضی اللہ عنہا سے فرمایا "پھر ہر نماز کے لیے وضو کیا کرو اور نماز پڑھا کرو"[ اس حدیث کو امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے]

ب۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ ظہر کو عصر تک مؤخر کرے پھر غسل کرے

اور وضو کر کے دونوں نمازیں اکٹھی پڑھ لیں اور اس طرح رسول اللہ ﷺ حضرت حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا سے فرمای"اگر آپ ظہر کو مؤخر کر کے اور عصر کو پہلے وقت میں پڑھ سکتی ہو تو ایک ہی دفعہ وضو کر کے ظہر اور عصر پڑھ لو اور اسی طرح مغرب کو مؤخر کر کے اور عشاء کی نماز کو پہلے کر کے غسل کر لو اور وضو کرو اور دونوں نمازوں کو ایک ہی دفعہ جمع کر کے پڑھ لو اور فجر کی نماز کے لیے علیحدہ غسل کرو اور ادا کرو اور روزہ رکھو اگر اس کے رکھنے کی قدرت ہو تو"[ اس حدیث کو امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے]

ج۔ ہر نماز کے لیے غسل کرے کیونکہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے یہ ثابت ہے کہ ان کو سات دن مسلسل استحاضہ کا خون آتا رہا تو انہوں نے اس بارے میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھ"رسول اللہ ﷺ نے ان کو حکم دیا کہ ہر نماز کے لیے غسل کیا کرو پس وہ ہر نماز کے لیے غسل کرتیں تھیں"[ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]

4۔ اگر کسی عورت کا رحم میں زخم وغیرہ کی وجہ سے خون بہنے لگ گیا تو یہ خون دو حال سے خالی نہ ہو گا۔

ا۔ پہلی حالت یہ ہے کہ اسے پتہ ہو کہ یہ استحاضہ کا خون نہیں ہے تو اس صورت میں اس کے لیے استحاضہ کے احکام ثابت نہ ہونگے اور اسے ہر نماز کے لیے وضو کرنا پڑے گا۔

ب۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کا یہ گماں ہو کہ ہو سکتا ہے کہ یہ استحاضہ کا خون ہے تو اس صورت میں اس کا حکم مستحاضہ کا ہے۔

5۔ مستحاضہ کے ساتھ ہم بستری کرنا جائز کیونکہ شریعت نے اس سے نہیں روکا۔

نفاس

نفاس کی تعریف

نفاس

ولادت کی وجہ سے عورت کے رحم سے نکلنے والے خون کو نفاس کہتے ہیں۔

نفاس کی مدت

نفاس کی کم مدت کی کوئی مقدار نہیں ہوتی اور زیادہ سے زیادہ مدت 40 دن ہے اور اگر وہ اس سے پہلے پاک ہو گئی تو غسل کرے اور نماز پڑھے۔

نفاس کے احکام

1۔ اگر عورت نے بچے کو جنا اور اس نے خون نہیں دیکھا اور یہ بہت کم ہوتا ہے تو وہ وضو کرے اور نماز پڑھے اور اس پر غسل نہیں ہے۔

2۔ اگر خون 40 دن سے زیادہ جاری رہا اور اس کی عادت بھی 40 دن کے بعد خون کے رکنے کی تھی اور خون کے رکنے کی نشانیاں بھی ظاہر ہو گئیں تو وہ انتظار کرے یہاں تک کہ خون رک جائے اور اگرخون جاری رہا تو وہ مستحاضہ ہے اور اس کے لیے مستحاضہ کے احکام ہیں۔

3۔ اور اگر اس کا خون 40 دن سے پہلے رک گیا تو وہ غسل کرے نماز پڑھے اور روزے رکھے اور خاوند کے ساتھ ہم بستری بھی کرسکتی ہے۔

4۔ اگر اس کا خون 40 دن سے پہلے رک گیا اور 40 دن پورے ہونے سے پہلے دوبارہ خون جاری ہو گیا۔ اگر اسے پتہ چلا کہ یہ نفاس کا خون ہے تو وہ نفاس کا ہی خون شمار ہو گا۔

اور اگر اسے پتہ چلا کہ یہ نفاس کا خون نہیں ہے تو پھر وہ طاہرہ یعنی پاک عورت کے حکم میں ہو گی۔

5۔ نفاس اس خون کو کہتے ہیں جو انسان ایسی چیز جس میں انسانی خلقت کے آثار واضح ہوں کے سقوط اور وضع کے بعد نظر آتا ہے۔ اگر عورت کے پیٹ سے کوئی ایسی چیز گری جس میں انسانی خلقت کے آثار واضح نہیں تھے تو اس کی تین حالتیں ہیں۔

ا۔ پہلی صورت یہ ہے کہ وہ پہلے چالیس دن سے پہلے ساقط ہو تو اس صورت میں نکلنے والا خون استحاضہ کا خون ہے، پس وہ غسل کرے ، نماز پڑھے اور روزے رکھے۔

ب۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس چیز کا سقوط 80 دنوں کے بعد ہو تو اس صورت میں یہ نفاس کا خون ہے۔

ج۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اس چیز کا سقوط 40 سے 80 دنوں کے درمیان ہو تو اس صورت میں دیکھا جائے گا اگر اس میں خلقت کے آثار واضح ہیں تو پھر نفاس کا خون شمار کیا جائے گا اور اگر واضح نہیں ہیں تو پھر استحاضہ کا خون شمار کیا جائے گا۔

جو چیزیں حیض اور نفاس کی وجہ سے حرام ہو جاتی ہیں۔

1۔ ہمبستری

کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں "حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان کے قریب نہ جاؤ"

اور جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمای"تم سب کچھ کر سکتے ہو البتہ ہمبستری نہیں کر سکتے"[ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]

مسائل

1۔ اگر کسی آدمی نے حیض کی حالت میں اپنی بیوی کے ساتھ ہم بستری کی تو وہ گناہ گار ہے اور اس پر کفارہ لازم ہے اور اگر عورت کی رضا کے ساتھ اس نے ہمبستری کی تو عورت پر بھی کفارہ لازم ہے۔

اور کفارہ یہ ہے کہ وہ سونے کا ایک دینار یا آدھا دینار یا ان کے برابر سونا خیرات کرے

کیونکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس آدمی کے بارے میں جو حیض کی حالت میں اپنی بیوی کے ساتھ ہم بستری کرتا ہے فرمای"کہ وہ ایک دینار یا آدھا دینار اس فعل کے کفارے میں اللہ کی راہ میں صدقہ کر دے"[اس حدیث کو اما ابوداؤد نے روایت کیا ہے]

اور ایک دینار 4.25 گرام سونے کے برابر ہے۔

2۔ اگر حیض والی عورت حیض سے پاک ہو گئی تو غسل کرنے سے پہلے اس کا خاوند اس کے ساتھ ہمبستری نہ کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں "حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان کے قریب نہ جاؤ، ہاں جب وہ پاک ہو جائیں تو ان کے پاس جاؤ جہاں سے اللہ نے تمہیں اجازت دی ہے"

2۔ حیض اور نفاس والی عورت کے لیے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔

کیونکہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں"جب آپ کو حیض کا خون آنا شروع ہو جائے تو نماز پڑھنا چھوڑ دیا کرو اور جب رک جائے تو غسل کر لیا کرو اور نماز پڑھا کرو"[اس حدیث کو اما ابوداؤد نے روایت کیا ہے]

مسائل

1۔ عورت جب حیض سے پاک ہو جائے تو اس پر حیض کے دوران فوت شدہ نمازوں کی قضاء نہیں ہے کیونکہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حائضہ کی نمازوں اور روزوں کی قضاء کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا "ہمیں بھی حیض کا خون آتا تھا تو رسول اللہ ﷺ ہمیں روزوں کی قضاء کا حکم دیتے تھے البتہ نمازوں کی قضاء کا حکم نہیں دیتے تھے"[یہ حدیث متفق علیہ ہے]

2۔ اگر حائضہ عورت کو کسی نماز کے وقت میں سے ایک رکعت کے برابر کا وقت بھی مل گیا تو وہ نماز اس پر واجب ہو جائے گی اور اگر اس سے کم ملا تو پھر وہ نماز اس پر واجب نہیں ہو گی کیونکہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں"جس نے ایک رکعت پا لی گویا کہ اس نے پوری نماز پالی"[ یہ حدیث متفق علیہ ہے]

3۔ حیض اور نفاس کی وجہ سے روزے رکھنا بھی جائز نہیں ہے۔

کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "کیا ایسا نہیں ہے کہ عورت جب حائضہ ہوجائے تو وہ نماز اور روزہ نہیں رکھتی تو انہوں نے یعنی عورتوں نے کہا جی ہاں ایسے ہی ہے"[ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]

مسئلہ

اگر حائضہ عورت فجر سے پہلے پاک ہو گئی اور اس نے روزہ رکھ لیا تو اس کا روزہ ٹھیک ہے اگرچہ ا س نے غسل نہ کیا ہو۔

4۔ حیض اور نفاس کی وجہ سے قرآن کریم کو چھونا بھی جائز نہیں ہے۔

کیونکہ رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں "قرآن حکیم کو صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں" اور رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں "قرآن کریم کو صرف پاک لوگ ہی چھوئیں" [اس حدیث کو امام مالک نے مؤطا میں روایت کیا ہے]

5۔ بیت اللہ کا طواف بھی جائز نہیں ہے

کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حائضہ ہو گئیں تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمای"جو کام حاجی کرتے ہیں وہ تم بھی کرو البتہ بیت اللہ کا طواف نہ کرو جب تک تم پاک نہ ہو جاؤ" [ یہ حدیث متفق علیہ ہے]

6۔ حیض اور نفاس کی وجہ سے مسجد میں ٹھہرنا بھی جائز نہیں ہے البتہ گذرنا جائز ہے

کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں "اے ایمان والو! جب تم نشے میں مست ہو تو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ جب تک کہ اپنی بات کو نہ سمجھنے لگو اور جنابت کی حالت میں جب تک کہ غسل نہ کر لو، ہاں اگر راہ چلتے گذر جانے والے ہو تو اور بات ہے"

مسائل

1۔ حائضہ کے لیے عید گاہ میں جانا اور ٹھہرنا حرام ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں"حائضہ عورتیں عید گاہ سے دور رہیں"[ یہ حدیث متفق علیہ ہے]

2۔ حائضہ کا مسجد میں سے گذرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جب اس کو اس بات کا یقین ہو کہ میرے گذرنے سے مسجد گندی نہیں ہو گی کیونکہ اللہ تعالیٰ کے قول میں عمومیت پائی جاتی ہے (ہاں اگر راہ چلتے گذر جانے والے ہو تو اور بات ہے)

اگرچہ عید گاہ کی طرف نکلنا، خطبہ سننا اور مسلمانوں کی دعاؤں میں شریک ہونا ان کے لیے مستحب ہے۔

7۔ الطلاق

خاوند کے لیے بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دینا حرام ہے کیونکہ اللہ فرماتا ہیں "اے نبی (اپنی امّت سے کہو) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت (کے دنوں کے آغاز) میں انہیں طلاق دو اور عدت کا حساب رکھو"