ایسا اسم ہے جو سامی زبان کے لفظ”بک” سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے وادی
ایسا اسم ہے جو سامی زبان کے لفظ”بک” سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے وادی
مکہ مکرمہ کا نام اللہ جل شانہ کے قول میں لفظ بکہ کے ساتھ وارد ہوا ہے" اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں کیلئے مقرر کیا گیا وہی ہے جو مکہ”شریف”میں ہے جو تمام دنیا کیلئے برکت و ہدایت والا ہے " [آل عمران:96]
ابراھیم واسماعیل علیہما السلام کے زمانے میں رسول اللہﷺ کی پیدائش سے انیس صدیاں پہلے مکہ مکرمہ کی تاریخ کا تذکرہ ملتا ہے اس اعتبار سے کہ انہوں نے سب سے پہلے مکہ مکرمہ میں سکونت اختیار کی۔
اللہ جل شانہ ابراھیم علیہ السلام کی حکایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں" اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی کچھ اولاد اس بے کھیتی کی وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسائی ہے۔اےہمارے پروردگار!یہ اس لئے کہ وہ نماز قائم رکھیں،پس تو کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کردے اور انہیں پھلوں کی روزیاں عنایت فرما تاکہ یہ شکر گزاری کریں "
اور ابراھیمؑ کی دعا کے نتیجے میں اسماعیلؑ کے قدموں کے نیچے سے پانی پھوٹ پڑا جب اسکی والدہ ھاجرہرضی اللہ عنہا کے پاس پانی اور کھانا ختم ہو گیا تھا۔ اس زمانے سے قبائل نے مکہ کا رخ کیا اور زندگی کی حل چل شروع ہو گئی۔
کثرت سے مختلف قبیلے یہاں آباد ہونا شروع ہوئے یہاں تک کہ مکہ کی نگرانی قریش کو سونپ دی گئی اور قریش اسکی نگرانی کے فرائض انجام دیتے رہے یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہوئی جن کی وجہ سے نہ صرف مکہ میں بلکہ پوری دنیا میں طرز زندگی تبدیل ہو گئی۔
رسول اللہﷺ مکہ میں مبعوث ہوئے اور کعبہ مسلمانوں کا قبلہ ٹھہرا اور مکہ مکرمہ اسلامی دعوت کا گہوارہ بن گیالیکن مکہ کے رہائشی اس دعوت سے سخت نفرت کرتے تھے اور اھل دین کو سخت اَذییتں پہنچاتے تھے، یہاں تک کہ مسلمان مدینہ منورہ کی طرف ھجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور وہاں پر اسلامی حکومت قائم ہوئی، پھر رسول اللہﷺ مکہ فاتح بن کر لوٹے پس اس وقت سے لیکر آج تک مکہ مکرمہ ایک بڑا اسلامی شہر ہے۔
تحقیق کے ساتھ مکہ مکرمہ اور حرم مکی خاص طور پر مسلمان خلفاءاور بادشاہوں کی خصوصی توجہ کا مرکز رہے ہیں اور انہوں نے اسکی تعمیر وترقی میں اہم کردار ادا کیا یہاں تک کہ مکہ مکرمہ ایک ایسا مرکز بن گیا جس سے نکلنے والی اسلام کے نور کی شعاعیں سارے عالم کو منور کر رہی ہیں۔
اللہ جل شانہ نے فرمای" جو حرم مکی میں داخل ہو گیا تو وہ مامون ہے "
حضرت اَبو ھریرۃ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمای" مکہ اور مدینہ کو فرشتوں نے گھیرے ہوا ہے۔ ہر پہاڑی راستے پر ان میں سے ایک فرشتہ نگران مقرر ہے اس میں دجال اور طاعون داخل نہیں ہو سکتے۔ "[ اس حديث کو اما م احمد نے روايت کيا ہے]
حضرت جابر سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمای" مسجد حرام میں ایک نماز دیگر مسجدوں میں ایک لاکھ نمازوں سے بہتر ہے "[ اس حديث کو ابن ماجہ نے روايت کيا ہے]
رسول اللہ ﷺ نے فرمای" خدا کی قسم بیشک اے مکہ تو اللہ جل شانہ کی سب سے بہترین اور انتہائی محبوب زمین ہے۔ "[ اس حديث کو امام ترمذی نے روايت کيا ہے]
اللہ جل شانہ فرماتے ہیں" جس کسی نے حرم مکی میں گناہ کا ارادہ کیا ہم اسکو دردناک عذاب چکھائیں گے " (الحاد) اللہ جل شانہ کی ہر قسم کی نافرمانی کو کہتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمای" اللہ جل شانہ کو انسانیت میں تین آدمی انتہائی مبغوض ہیں اور ان تین آدمیوں میں اس آدمی کا بھی تذکرہ ہے جس نےحرم مکی میں گناہ کا ارادہ کیا۔" [اس حديث کو امام بخاری نے روايت کی ہے]
اللہ جل شانہ نے فرمای" اور یہ کہ ہم نے اس گھر “خانہ کعبہ” کو لوگوں کیلئے مرکز اور امن کی جگہ قرار دیا تھ "
پس جو مکہ میں داخل ہوا وہ مامون ہو گیا اسی لیے رسول اللہﷺ نے فرمای" کسی کیلئے مکہ مکرمہ میں اسلحہ اٹھانا جائز نہیں "۔[ اس حديث کو امام مسلم نے روايت کيا ہے]
اور رسول اللہﷺ نے فرمایا " اللہ جل شانہ نے حرام کیا ہے مکہ مکرمہ کو اور حرام نہیں کیا اسکو لوگوں نے، پس جائز نہیں ہے مسلمانوں کیلئے کہ اس میں خون بہائے اور نہ ہی اسکے درختوں کو کاٹنا جائز ہے "[ اس اما م بخاری نے روايت کيا ہے]
اللہ جل شانہ نے فرمای" اےوہ لوگوں جو ایمان لے آئے ہو بیشک مشرکین ناپاک ہیں پس وہ اس سال کے بعدمسجد حرام کے قریب نہ جائیں "
اور رسول اللہ نے ﷺ منی کی پہاڑی پر اعلان کرنے کا حکم دیا کہ اعلان کیا جائے " کہ اس سال کے بعد مشرک حج نہ کرے اور نہ ہی بیت اللہ کا برہنہ طواف کیا جائے۔ "[اس حديث کو امام بخاری نے روايت کی ہے]
عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمای" اللہ جل شانہ نے مکہ مکرمہ کوحرام کیا ہے پس اسکوحلال نہیں کیا گیا مجھ سے پہلے کسی کیلئے اور نہ میرے بعد کسی کیلئے ،اسکو میرے لئے دن میں ایک گھنٹہ حلال کیا گیا اسکے گھاس کو نہیں کاٹا جائے گا اور نہ ہی درختوں کو،نہ اسکے شکار کوبھگایا جائے گا اور نہ ہی کوئی گم شدہ چیز اٹھائی جائےگی ہاں اس کیلئے اٹھانا جائز ہے جو جانتا ہو۔" [اس حديث کو امام بخاری نے روايت کی ہے]
حج کی نشانیاں حج کے ان ظاھری علامات کو کہتے ہیں جن کی وجہ سےحج کی عبادت دوسری عبادت سے جدا ہوتی ہے۔
عرفات عرفۃ کی مفرد ہے اور عرفات کو عرفات اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں آدم وحواءنے ایک دوسرے کو پہچانایا اس لئے کہ لوگ اس پہاڑی پر اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں
عرفات مکہ مکرمہ سے تقریبا 9 میل مشرق کی طرف ایک میدان ہے جہاں پر حاجی لوگ نویں ذی الحجہ کو ٹھہرتے ہیں
نمرہ مسجد کے مغرب میں واقع پہاڑ کا نام ہے اور اسی کی نسبت سے مسجد کا نام رکھا گیاہے۔
اور تحقیق رسول اللہ ﷺ نے وادی عرفۃ میں پڑاو ڈالا اور خطبہ دیا اور نماز پڑھی پس اسی وادی میں رسول اللہﷺ کے خطبے اور نماز کی جگہ پر عباسی دور حکومت میں مسجد بنائی گئی پھر اس میں اور اسکی عمارت میں سعودی دور حکومت میں توسیع کی گئی یہاں تک کہ وہ ایک لاکھ دس ہزار مربع میڑ کی ہو گئی اور ذی الحجہ کی نویں تاریخ کو اس میں لوگ جمع ہوتے ہیں۔
یہ مسجد عرفات میں جبل رحمت کے نیچے دائیں طرف واقع ہےاور اس میں بڑے بڑے پتھر ہیں عرفات کی رات رسول اللہﷺ نے ان کے پاس کھڑے ہو کر حجۃ الوداع کا خطبہ دیا اور یہاں حاجی نویں “9”ذی الحجہ کو جمع ہوتے ہیں
یہ ایک پتھر سے بنا ہوا چھوٹا سا پہاڑ ہے اور مکہ مکرمہ کے مشرق میں 20 کلو میڑ کے فاصلے پر واقع ہے اور اسکی سطح ہموار اور وسیع ہے اور اسکا کل احاطہ 640 مربع میڑ ہے اور اس میں حاجی نویں ذی الحجہ کو جمع ہوتے ہیں۔
منی کو منی کہا گیا ہے اس میں خون بہائے جانے کی وجہ سے۔
یہ مسجد حرام کے شمال مشرق میں 7 کلو میڑ کے فاصلے پر مکہ مکرمہ اورمزدلفہ کے درمیان واقع ہے جو حاجی جلدی آئے ہیں وہ 12،11 کی رات یہاں گزارتے ہیں اور جو دیر سے آتے ہیں وہ 13 کی رات یہاں گزارتے ہیں، یہ حرم کی حدود ہی میں واقع ہے اور اسی میں مسجد خیف اور جمرات ثلاثہ ہیں۔
جمرات جمرۃ کی جمع ہے اور یہ چھوٹی کنکری کو کہتے ہیں منی میں کنکریاں مارنے کی تین جگہیں مندرجہ ذیل ہیں: الجمرۃ الصغریٰ ،الوسطیٰ، العقبۃ ، اور یہ جمرات تین حوضوں میں واقع تین پتھری ستونوں سے عبارت ہیں۔
یہ نشانی ہے اس جگہ کی جہاں شیطان ظاھر ہوا اور سیدنا ابراھیمؑ نے اسکو مارا ۔اور جمرۃ العقبۃ اور وسطیٰ کے درمیان 247 میڑ کا فاصلہ ہے اور وسطیٰ اور صغریٰ کے درمیان 200 میڑ کا فاصلہ ہے۔
یہ منی کے جنوبی طرف الجمرۃ الصغریٰ کے قریب واقع ہے۔
مزدلفۃ منی اور عرفات کے درمیان ہے یہاں حاجی عرفات میں قیام کے بعد رات گزارتے ہیں۔
مزدلفۃ کے درمیان میں المشعر الحرام واقع ہے یہ وہ جگہ ہے جہاں حاجیوں کیلئے قیام کرنا ، اللہ سے مانگنا، ذکر کرنا اور شکر ادا کرنا مستحب ہے اور جب حاجی نویں ذی الحجہ کو سورج غروب ہونے کے بعد عرفات سے اترتے ہیں تو یہاں قیام کرتے ہیں۔
خانہ کعبہ مکعب نما ہے
یہ بیت اللہ کا شمالی حصہ ہے اور یہ وہ جگہ ہے جب قریش نے کعبہ کی تعمیر نو کی تو کعبہ کی تعمیر کیلئے مختص رقم کم پڑنے کی وجہ سے انہوں نے کعبہ کا یہ حجر والا حصہ خالی چھوڑ دیا تھااور اس پر ایک قوس نما دیوار بنا ڈالی اس بات پر دلالت کیلئے کہ یہ بیت اللہ کا حصہ ہے اور یہ اوپر ذکر کیا گیا نام ایک عام نام ہے کوئی شرعی اصطلاح نہیں ہے۔
یہ خانہ کعبہ کے دروازے کی بائیں جانب جنوبی گوشہ کی دیوار میں نصب ہے ، یہ جنت کا پتھر ہے حجر اسود ٹوٹ جانے کے بعد کھجور کے حجم کی مانند آٹھ ٹکڑے باقی رہ گیا ہے۔
یہ بیت اللہ کا جنوب مغربی گوشہ ہے اور اسے رکن یمانی اس لیے کہا جاتا ہے کہ یمن کی طرف ہے اور رکن یمانی کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ ان بنیادوں پر قائم ہےجو سیدنا ابراھیمؑ اور اسماعیلؑ نے اٹھائیں تھیں۔
یہ حجراسود اور خانہ کعبہ کے دروازے کی چوکھٹ کے درمیان ہے یہ دعا قبول ہونے کی جگہ ہے اور یہاں رخسار ، سینہ ، بازو، اور ہتھیلیوں کو دیوار کے ساتھ ملا کر دعا مانگنا سنت ہے۔