جمعہ کی نماز ہر مسلمان بالغ وعاقل اپنے وطن میں رہنے والے یعنی مقیم پر جب چھوڑنے کا کوئی شرعی عذر نہ ہو، فرض عین ہے۔
1۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں " اے ایمان والو جب تمہیں جمعہ کی نماز کی دعوت دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑپڑو اور خریدوفروخت چھوڑ دو "
2۔ رسول ﷺ اللہ فرماتے ہیں " قوموں کو جمعہ چھوڑنے سے روکا گیا ہے اگر انہوں نے اللہ کے حکم کی فرمانبرداری نہ کی تو ان کے دلوں پر مہر لگا دی جائے گی اور پھر وہ غفلت کرنے والوں میں سے ہوں گے"۔[ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]
عورت، بچے ،مسافر پر جمعہ واجب نہیں ہے اور اس طرح اس مریض پر بھی واجب نہیں ہے جو انتہائی مشقت کی وجہ سے جمعہ کی نماز میں حاضر نہ ہو سکتا ہو۔ اور اگر یہ لوگ جمعہ کی نماز میں حاضر ہو گئے تو انکی جمعہ کی نماز ٹھیک ہے اور اگر نہ ہوئے تو ظہر کی نماز پڑھیں گے۔
ہفتے کے دنوں میں سے جمعہ کا دن سب سے بہترین دن ہے اور اس دن سے اللہ تعالیٰ نے صرف اُمّت مسلمہ کو نوازا ہے۔ اور اسکی فضیلت میں بہت ساری احادیث وارد ہوئیں ہیں۔
1۔ رسول ﷺ اللہ فرماتے ہیں "سورج کے نکلنے سے شروع ہونے والے دنوں میں سب سے پہترین دن جمعہ کا دن ہے جس میں آدم کو پیدا کیا گیا انہیں جنت میں داخل کیا گیا اوراسی دن انکو جنت سے نکالا گی"[ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]
2۔ ابو ہریرہ رضي الله عنه فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا "جس نے غسل کیا پھر جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے لیے آیا اور جواسکے مقدر میں تھا وہ نماز پڑھی،پھر امام کے خطبے سے فارغ ہونے تک خاموش رہا پھر امام کے ساتھ نماز پڑھی تو اس سے اس جمعہ اور گذرے ہوئے جمعہ کے اورتین دن زائد کے تمام گناہ بخش دیے جائیں گے "۔ [اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]
3۔ حضرت ابو ہریرہ رضي الله عنه فرماتے ہیں کہ رسول ﷺ اللہ نے فرمایا "پانچوں نمازیں، ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک کے تمام گناہوں کا کفارہ ہیں۔ اگر اس نے اپنے آپ کو گناہ کبیرہ سے بچا لیا " [اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]
4۔ حذیفہ بن الیمان رضي الله عنه سے مروی ہے "کہ رسول ﷺ اللہ نے فرمایا کہ ہم سے پہلی امتوں کو جمعہ کے دن سے دور رکھا گیا پس یہودیوں کے لیے خاص دن، ہفتے کا دن تھا اور نصاریٰ کے لیے اتوار کا دن تھا۔تو اللہ نے ہمیں جُدا کیا اوار جمعہ کا دن عطا کیا۔ پھر جمعہ کو پہلے کر دیا پھر ہفتہ اور پھر اتوار اس طرح وہ قیامت کے دن بھی ہم سے پیچھے ہوں گے ہم دنیا کے اعتبار سے پیچھے آنے والوں میں سے ہیں اور قیامت کے دن اوّلین میں سے ہیں کیونکہ مخلوقات میں سب سے پہلے امت محمدیؐ کے بارے میں فیصلہ کیا جائیگا "۔[ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]
5۔ نعمان بن بشیر سے مروی ہے کہ رسول ﷺ اللہ عیدین اور جمعہ کی نماز میں" سبح اسم ربك الأعلى ، وهل أتاك حديث الغاشية " [اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے] پڑھتے تھےاور جب عید اور جمعہ ایک دن میں جمع ہو جاتے تو پھر بھی ان دونوں نمازوں میں یہی دو سورتیں ہی پڑھتے تھے۔
6۔ ہفتے کے دنوں میں سے جمعہ کا دن سب سے بہترین دن ہے ۔ اسی دن حضرت آدم ؑ کو پیدا کیا گیا، انکو جنت سے اتارا گیا، ان کی توبہ قبول ہوئی اور اسی دن وہ فوت ہوئے [تبدیل کر دیا جائیگا] ۔
اسی دن قیامت قائم ہو گی اور اسی دن ایک ایسا لمحہ آتا کہ اس لمحے اور وقت میں انسان اللہ سے جو بھی مانگتا ہے وہ اسکو دے دیا جاتا ہے۔
حضرت کعب رضي الله عنه نے فرمایا کہ یہ لمحہ سال میں ایک دفعہ آتا ہے؟ پس میں نے جواب دیا ہر جمعہ والے دن یہ لمحہ اور وقت لوٹتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ حضرت کعب نے تورات پڑھی تو کہا رسول ﷺ اللہ نے سچ فرمایا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضي الله عنه فرماتے ہیں کہ پھر میں حضرت عبداللہ بن سلام سے ملا اور انکو حضرت کعب کے ساتھ ملاقات کے بارے میں بتلایا۔
پس حضرت عبداللہ بن سلام نے فرمایا کہ کیا آپ کو پتہ ہے کہ یہ کونسات وقت ہے؟ حضرت ابوہریرہ رضي الله عنه فرماتے ہیں میں نے ان سے کہا مجھے اس وقت کے بارے میں بتلا دیجیے تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ جمعہ کے دن کا آخری گھنٹہ ہے۔ تو میں نے کہا کہ وہ آخری گھنٹہ کیسے ہو سکتا ہے؟
(حالانکہ رسول ﷺ اللہ نے فرمایا اس وقت کے بارے میں کہ جب وہ لمحہ یا وقت انسان پر آئے اور وہ نماز پڑھ رہا ہو) اور آخری وقت میں تو نماز نہیں پڑھی جاتی اس پر حضرت عبداللہ بن سلام رضي الله عنه نے
فرمایا کہ کیا آپ نے رسول ﷺ " اللہ کا یہ قول نہیں سنا جس میں وہ فرماتے ہیں کہ جو وقت مسلمان کا نماز کی انتظار میں گذرتا ہے یہ وقت بھی نماز میں شمار ہوتا ہے یعنی گویا کہ وہ نماز پڑھ رہا ہے۔ میں نے جواب دیا جی ہاں با لکل ایسے ہی ہے تو انہوں نے فرمایا تو یہ اسی قبیل میں سے ہے۔ "[اس حدیث کو امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے]
7۔ جمعہ تمہارے بہترین دنوں میں سے ہے پس اس میں مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو۔ بے شک تمہارے درود مجھ پر پیش کیے جاتے ہیں تو صحابہ کرام نے کہا ہمارے درود آپ ﷺ پر کیسے پیش کیے جاتے ہیں حالانکہ آپ ﷺ کی ہڈیاں بوسیدہ ہو چکی ہوں گی تو رسول ﷺ اللہ نے فرمایا "اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کے جسموں کو حرام کر دیا ہے" [اس حدیث کو امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے]
1- پہلی شرط ہے یعنی جمعہ کی نماز باقی نمازوں کی طرح وقت سے پہلے بھی جائز نہیں اور بعد میں بھی جائز نہیں ہے اور اسکا وقت ظہر کی نماز کا وقت ہے۔
2 - دوسری شرط جمعہ کے لیے جماعت کا ہونا ہے پس ایک آدمی یا تین سے کم کا جمعہ کی نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔
3 - جمعہ کے لیے تیسری شرط استیطان ہے اسکا مطلب یہ ہے کہ جمعہ کی نماز اس جگہ پر پڑھنا جائز ہے جہاں ہر موسم میں لوگ بستے ہوں اور کسی بھی موسم میں نہ گرمی میں اور نہ ہی سردی میں وہاں سے لوگ ہجرت کرتے ہوں۔
صحرا اور خیموں میں رہنے والوں نے اگر جمعہ کی نماز پڑھی تو جائز ہے البتہ ان پر واجب نہیں ہے۔
4 - چوتھی شرط یہ ہے کہ جمعہ سے پہلے دو خطبےپڑھے جائیں کیونکہ اسی پر رسول ﷺ اللہ نے ہمیشگی اختیار کی ہے۔
جمعہ کی نماز کی دو رکعتیں ہیں امام ان میں اونچی آواز میں قراءت کرے اور مسنون یہ ہے کہ پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعد سورۃ الجمعہ کی قراءت کرے اور دوسری میں فاتحہ کے بعد منافقون پڑھے۔یا پہلی میں سورۃ الاعلی اور دوسری میں سورۃ الغاشیۃ پڑھے۔[ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]
دونوں خطبے واجب ہیں اور وہ جمعہ کی صحت کے لیے شرط ہیں اور خطبے عربی زبان میں دیے جائیں اگر اکثریت عربی سمجھنے والوں کی ہو اور اگر وہ جملوں سے معانی نکال سکتے ہوں تاکہ لوگوں کو عربی سیکھنے پر ابھارا جا سکے اور رسول ﷺ اللہ کی سنت بھی پوری ہو جائے۔ اور اگر اکثریت عربی نہ سمجھنے والوں کی ہو تو خطبے دوسری زبانوں میں بھی دیے جاسکتے ہیں۔
کیونکہ خطبہ سے مقصود صرف خطبہ دینا نہیں ہے بلکہ احکام اسلام پر متنبّہ کرنا اور انکی تعلیم دینا مقصود ہے البتہ دوسری زبانوں میں خطبہ دیتے وقت آیات کو عربی ہی میں پڑھیں اور پھر ترجمہ کر کے ان لوگوں کو بتائیں۔
خطبہ جمعہ کے ارکان میں سے نہیں ہے بلکہ عرف عام میں جس چیز پر خطبے کا اطلاق ہوتا ہے وہی خطبہ ہے۔ لیکن کمال خطبہ یہ ہے کہ خطیب یہ چیزیں پڑھے۔
1۔ اللہ کی تعریف کرے۔
2۔ " اشھدان ، لا الہ اللہ ، اشھدان محمد عبدہ ورسولہ"
3۔ نبی ﷺ پر درود بھیجے۔
4۔ اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرے
5۔ قرآن میں سے چند آیات کی تلاوت کرے۔
6۔ لوگوں کو اچھے کاموں کی نصیحت کرے۔
1۔ جمعہ کے خطبے میں یہ مستحب ہے کہ منبر پر خطبہ دیا جائے۔
2۔ جمعہ کے خطبہ میں دوسری مستحب چیز یہ ہے کہ خطیب منبر پر چڑھنے کے بعد لوگوں کو سلام کرے۔
3۔ خطیب کا دونوں خطبوں کے درمیان تھوڑا سا بیٹھنا بھی جمعہ کے مستحبات میں سے ہے۔
4۔ جمعہ کے خطبوں کو چھوٹا کرنا بھی جمعہ کے خطبوں کے مستحبات میں سے ہے۔
5۔ دونوں خطبوں میں دعا مانگنا بھی مستحب ہے۔
1۔ جمعہ کے دن خطبہ کے دوران باتیں کرنا ممنوع ہے کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا " اگر آپ نے جمعہ کے دن خطبے کے دوران اپنے دوست سے خاموش ہو جا بھی کہا تو آپ نے لغو کام کی "۔[ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]
2۔ لوگوں کی گردنوں کو پھلانگنا مکروہ ہے ۔البتہ امام کے لیے اس لیے جائز ہے کہ اسکا امامت کی جگہ تک پہنچنا ضروری ہے۔یا اس خالی جگہ تک پہنچنے کے لیے بھی پھلانگنا جائز ہے جہاں تک لوگوں کی گردنوں کو پھلانگے بغیر نہ پہنچا جا سکتا ہو۔
مسلمان پر لازم ہے کہ وہ جمعہ کی نماز کے لیے جلدی کرے اگر وہ لیٹ ہو گیا لیکن امام کو دوسری رکعت کے رکوع میں پا لیا تو وہ اپنی نماز کو پورا کرے اور وہ جمعہ پانے والا شمار ہو گا۔
اور اگر وہ دوسری رکعت کو بھی نہ پاسکا تب وہ ظہر کی نماز پڑھے گا اور اسی طرح اگر نیند یا کسی اور وجہ سے اس سے جمعہ کی نماز رہ گئی تب بھی وہ ظہر کی چار رکعتیں پڑھے گا
1۔ جمعہ کے دن سورۃ الکہف پڑھنا مستحب ہے کیونکہ رسول ﷺ اللہ فرماتے ہیں" جس نے جمعہ کے دن سورۃ الکہف پڑھی تو نور کے ذریعے سے دونوں جمعوں کے درمیان کے وقت کو اسکے لیے روشن کر دیا جاتا ہے " [اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔]
2۔ کثرت سے نبی ﷺ پر درود پڑھنا،ابو مسعود الانصاری سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا "کہ جمعے کے دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو۔پس جو بھی مجھ پر جمعہ کے دن درود بھیجتا ہےتو اسکا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے"۔[ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے]
3۔ جمعہ کے دن غسل کرنا اور خوشبو لگانا مستحب ہے کیونکہ رسول ﷺ اللہ فرماتے ہیں " جو آدمی جمعے کے دن غسل کرتا ہے اور بقدر استطاعت پاکی حاصل کرتا ہے اور اپنے سر میں تیل لگاتا ہےیا اپنے گھر کی خوشبو لگا تا ہے اور لوگوں کو اذیّت پہنچائے بغیر جمعہ کی نماز کے لیے نکلتا ہے پھر حسب قدر ت نماز پڑھتا ہے اور امام کے خطبے کےدوران خاموش ہو جاتا ہے تو اس کے اس جمعہ اور پہلے جمعہ کے درمیان کیے گئے گناہ بخش دیے جاتے ہیں "[ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]
1۔ منبر کی تین سیڑھیاں ہونا سنت ہے کیونکہ رسول ﷺ اللہ کے منبر کی تین سیڑھیاں تھیں۔
2۔ جمعے والے دن بعض لوگ جمعہ کی نماز سے پہلے دائرے میں جاتے ہیں اور ایک آدمی انکو قرآن کی چند آیات پڑھ کر سناتا ہے یہاں تک کہ جمعہ کی اذان ہو جاتی ہے یا پھر ترانے گاتے ہیں اور اونچی آواز میں اجتماعی ذکر کرتے ہیں یہ سنّت میں نہیں ہے۔
جب امام منبر پر بیٹھ جائے تو ایک ہی آذان مشروع ہے جیسا کہ رسول ﷺ اللہ، ابوبکر صدیق رضي الله عنه اور عمر فاروق رضي الله عنه کے زمانے میں ہوتا تھا اور حضرت عثمان رضي الله عنه کے دور میں جو ایک ہی آذان مدینہ میں دی جاتی تھی اسکی وجہ یہ تھی کہ لوگوں کو جمعہ کے وقت کے داخل ہونے کے بارے
میں بتلایا جا سکے اور آجکل چونکہ لوگوں کو آسانی سے پتہ چل جاتا ہے کہ جمعہ کا وقت داخل ہو گیا ہے اس لیے اس آذان کی ضرورت نہیں ہوتی۔
3۔ اگر نمازی امام کے خطبے کے دوران آجائے تو بیٹھنے سے پہلے مختصر سی دو رکعتیں پڑھ لے۔ کیونکہ رسول ﷺ اللہ فرماتے ہیں "جب تم سے کوئی جمعہ والے دن امام کے خطبے کے دوران مسجد میں آ جائے تو اسے چاہیے کہ بیٹھنے سے پہلے مختصر سی دو رکعتیں پڑھ لے۔"[ اس حدیث کو ابن حزیمہ نے روایت کیا ہے]
4۔ جمعے کے دن خطیب خطبے کی دعا میں صرف شہادت کی انگلی کو بلند کرے گا۔ استسقاء اور بارش کو روکنے کے متعلق دعا کے علاوہ کسی اور دعا میں ہاتھ اٹھانا جائز نہیں ہے۔
حضرت حصین بن عبدالرحمٰن فرماتے ہیں "میں نے رسول ﷺ اللہ کو خطبہ دیتے ہوئے دیکھا آپ ﷺ خطبے میں دعا کے وقت شہادت کی انگلی کو بلند کیے ہوئے تھے"[ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے]
5۔ نماز جمعہ سے پہلے کوئ سنت نہیں ہے لیکن مستحب یہ ہے کہ اذان سے پہلے مطلق نفل پڑھے کیونکہ رسول ﷺ اللہ فرماتے ہیں "جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اور بقدر استطاعت پاکی حاصل کی ،پھر تیل لگایا یا اپنے گھرکی خوشبو استعمال کی پھر وہ جمعہ کی نماز کی طرف چلا اور صفوں کو پھلانگنے سے گریز کیا اور فرض نماز ادا کی۔ اور امام کے خطبے کے وقت خاموش رہا تو اس کے اس جمعے اور گزرے ہوئے جمعہ کے درمیان کے تمام گناہ بخش دیے جائیں گے"۔ [اس حدیث کو الدارمي نے روایت کیا ہے]
6۔ جمعہ کی نماز کے بعد دو رکعت سنت پڑھے کیونکہ ابن عمر رضي الله عنه فرماتے " ہیں کہ نبی ﷺ اکرم جمعہ کی نماز کے بعد دو رکعت سنت گھر میں " [اس حدیث کو الجماعة نے روایت کیا ہے]
پڑھا کرتے تھے یا چار رکعتیں پڑھے کیونکہ آپ ﷺ فرماتے ہیں "جو تم میں جمعہ کے بعد نماز پڑھنے والا ھو تو وہ چار رکعتیں پڑھے اور افضل یہ ہے کہ وہ یہ چار رکعتیں گھر میں پڑھے"۔[ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]
7۔ جب عید اور جمعہ اکٹھے آ جائیں تو زیادہ احتیاط یہی ہے کہ عید اور جمعہ دونوں پڑھے ،اگر اس نے عید پڑھ لی تو کم از کم ظہر کی نمازضرور پڑھے اور دور دراز رہنے والوں کو رخصت دے دی جائیگی کہ وہ عید کی نماز پڑھنے کے بعد جمعہ کی نماز کے لیے نہ لوٹیں۔
ایاس بن ابی رملۃ شامی سے مروی ہے "میں نے حضرت معاویہ رضي الله عنه کو دیکھا وہ حضرت زید بن ارقم رضي الله عنه سے پوچھ رہے تھے کہ آپ کبھی رسول ﷺ اللہ کے ساتھ دو عیدوں میں حاضر ہوئے؟ تو انہوں نے کہا جی ہاں۔ رسول ﷺ اللہ دن کی ابتدا میں عید کی نماز پڑھا کرتے تھے اور جمعہ کی نماز کے بارے میں رخصت دے دیتے تھے اور فرمایا جو دونوں کو جمع کرنا چاہے تو وہ جمع کر سکتا ہے"[ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے]