قصد اور کسی چیز کی طرف متوجہ ہونے کو کہتے ہیں
قصد اور کسی چیز کی طرف متوجہ ہونے کو کہتے ہیں
پاکی کی غرض سے چہرے اور ہاتھوں کو پاک مٹی کے ساتھ مسح کرنے کو کہتے ہیں۔
پانی نہ ہونے کی صورت میں یا جب پانی کا استعمال متعذر ہو تو اس وقت تیمّم کرنا واجب ہے۔ اس چیز کے لیے جس کے لیے پاکی واجب ہوتی ہے اور جس چیز کے لیے پاکی مستحب ہو اس کے لیے تیمّم بھی مستحب ہوتا ہے۔
1۔ اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں فرماتے ہیں "اور تمہیں پانی نہ ملے تو تم پاک مٹی میں تیمم کر لو"
2- رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں "مجھے پانچ چیزیں دی گئ ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں، میری رعب کے ساتھ مدد کی گئی ہے اور میرے لیے زمیں کو مسجد بنایا گیا ہے پس میری امت میں جس بھی آدمی پر جہاں بھی نماز کا وقت آئے تو وہ وہاں ہی نماز پڑھ لے"[ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]
1۔ تیمّم کے مشروع ہونے کی ایک حکمت یہ ہےکہ امّت محمدی کےلیے اسانی پیدا کی جا سکے۔
2۔ بعض اوقات پانی کے استعمال سے نقصان کا خطرہ ہوتا ہے، اس سے بچنے کے لیے جیسے بیماری وغیرہ۔
3۔ عبادت کے ساتھ مسلسل جڑے رہنے کی وجہ سے تاکہ پانی نہ ہونے کی وجہ سے بھی عبادت سے دوری واقع نہ ہو۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان عالی شان ہے کہ "اور جب تم کو پانی نہ ملے تو تم پاک زمین سے تیمّم کر لو" پانی نہ ملنے سے مراد یہ ہے کہ ڈھونڈنے کے بعد بھی نہ ملے۔
جیسےبیمار یا وہ آدمی جو حرکت نہ کر سکتا ہو اور کوئی وضو کرنے میں اس کا معاون اور مددگار بھی نہ ہو۔
اس نقصان کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں۔
أ۔ وہ بیمار جس کی بیماری کا پانی کے استعمال کی وجہ سے بڑھ جانے کا خطرہ ہو۔
ب۔ اگر سخت سردی ہے اور پانی کو گرم کرنے کی کوئی چیز نہیں ہے "اور آدمی کا غالب گمان یہ ہے کہ اگر وہ اس پانی سے وضو کرے گا تو بیمار ہو جائے گا تو اس کے لیے تیمم کرنا جائز ہے کیونکہ یہ ثابت ہے کہ عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو سخت سردی کی وجہ سے تیمم کر کے نماز پڑھائی اور اس پر رسول اللہ ﷺ نے کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ خاموشی اختیار کی۔"[ اس حدیث کو امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے]
ج۔ اگر کسی آدمی کے پاس تھوڑا سا پانی ہے جو اس کے پینے کے لیے ہے، اس کے علاوہ اور پانی نہیں ہے تو تیمم جائز ہے۔
1۔ دونوں ہاتھ مٹی میں مارے۔
2۔ پھر ان کو جھاڑے تاکہ غبار کم ہو جائے۔
3۔ پھر ان دونوں کے ساتھ ایک دفعہ چہرے کا مسح کرے۔
4۔ پھر ہتھیلیوں کے ظاہر کا مسح کرے، دائیں ہاتھ سے بائیں ہتھیلی کے ظاہرکا مسح کرے اور بائیں ہاتھ سے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کے ظاہر کا مسح کرے۔
تیمم کے اس طریقے پر دلیل یہ ہے کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں "کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے اور ان کو پھونکا (تاکہ جو خاک لگی ہو وہ اڑ جائے) پھر آپ ﷺ نے ان دونوں ہاتھوں کو اپنے چہرے پر اور ہاتھوں پر پھیر لی" [یہ حدیث متفق علیہ ہے]
1۔ نیت فرض ہے تیمم میں
2۔ تیمم میں چہرے کا مسح فرض ہے۔
3۔ تیمم میں دونوں ہتھیلیوں کا مسح فرض ہے۔
4۔ تیمم میں ترتیب بھی فرض ہے یعنی پہلے چہرے کا مسح کرے گا اور پھر ہتھیلیوں کا۔
5۔ اور تیمم میں تسلسل بھی فرض ہے۔
1۔ پانی کے ملنے سے تیمم باطل ہو جاتا ہے۔
2۔ جن چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ان سے تیمم بھی ٹوٹ جاتا ہے جیسے ہوا وغیرہ کا نکلنا۔
3۔ جس عذر کی وجہ سے تیمم جائز ہوا تھا اس کے زائل ہونے سے بھی تیمم باطل ہو جاتا ہے۔
1۔ اگر ایک آدمی پانی کے استعمال پر قادر نہیں ہے تو اس لیے اس نے نفس پر بوجھ ڈال کر پیشاب روکا ہوا ہے کیونکہ اگر پیشات کرے گا تو وضو ٹوٹ جائےگا تو اس آدمی کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ وضو توڑ لے اور تیمم کے ساتھ نماز پڑھے۔
2۔ تیمم دیوار اور مصلے پر جائز نہیں ہے البتہ اس وقت جائز ہے جب ان پر مٹی اور غبار ہو۔
3۔ تیمم کرنے والا ایک تیمم سے جتنے فرائض اور نوافل پڑھنا چاہے پڑھ سکتا ہے جب تک کوئی تیمم توڑنے والی چیز ظاہر نہ ہو جائے۔
4۔ وضو کرنے والے کی اقتداء تیمم کرنے والے کے پیچھے ٹھیک ہے "کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے کوئی نکیر نہیں کی جب حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے سخت سردی کی وجہ سے تیمم کر کے اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی۔"[ اس حدیث کو امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے]
5۔ جس کسی نے تیمم کر کے نماز پڑھی پھر وقت نکلنے سے پہلے اس کو پانی مل گیا تو وہ نماز کو نہ لوٹائے۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں"ایک دفعہ دو آدمی سفر پر نکلے، نماز کا وقت ہو گیا لیکن ان کے پاس پانی نہیں تھا پس ان دونوں نے پاک مٹی سے تیمم کیا اور نماز پڑھی۔ پھر نماز کا وقت نکلنے سے پہلے ان کو پانی مل گیا تو ان دونوں میں سے ایک نے دوبارہ وضو کر کے نماز پڑھی اور دوسرے نے نہیں پڑھی، پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور اپنا واقعہ بیان کیا، جس نے نماز نہیں لوٹائی تھی رسول اللہ ﷺ نے اس سے کہا آپ نے سنت پر عمل کیا اور آپکی نماز ٹھیک ہے اور جس نے نماز لوٹائی تھی اس سے کہا آپ کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ دو اجر دے گا "[اس حدیث کو امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے]
6۔ جس کسی نے تیمم کیا پھر اس کو نماز سے پہلے یا نماز کے بعد پانی مل گیا تو اس پر وضو کرنا واجب ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ فرماتے "ہیں "کہ پاک مٹی مسلمانوں کا سامان طہارت ہے اگرچہ دس سال تک پانی نہ ملے پس جب پانی پاوے تو اس کو چاہیے کہ بدن پر(پانی) ڈالے یعنی اس وضو یا غسل کر ے کیونکہ یہ بہت اچھا ہے"[ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے]
7۔ اگر پانی ملنے کی امید ہو تو تیمم کو آخر وقت تک مؤخر کرنا جائز ہے اور اگر پانی ملنے کی امید نہ ہو تو مستحب یہ ہے کہ پہلے وقت میں تیمم کر کے نماز پڑھ لے کیونکہ بہتر نماز وہی ہے جو اپنے وقت پر پڑھی جائے۔
8۔ اگر پانی بھی ہو اور انسان اس کے استعمال پر بھی قادر ہو تو صرف وقت کے نکلنے کے خوف سے وہ تیمم نہیں کر سکتا بلکہ اس کو وضو کرنا ہو گا اگرچہ وقت نکل جائے۔
9۔ کوئی بھی چیز انسان کو نماز سے نہیں روک سکتی اگر پانی نہیں ہے تو وہ تیمم کر لے اور اگر تیمم نہیں کر سکتا تو بغیر وضو کے نماز پڑھ لے اور اس کو فاقد الطہورین کہیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں "جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہو "