رکنے کو کہتے ہیں
رکنے کو کہتے ہیں
ایسی عبادت میں داخل ہونے کی نیت جو حج کے اعمال میں سے کسی عمل کے ساتھ ملی ہوئی ہو کو کہتے ہیں۔
احرام بغیر نیت کے نہیں ہوتا ، پس انسان صرف حج اور عمرہ کے ارادے سے محرم نہیں بنتا کیونکہ وہ حج اور عمرہ کا اردہ کر کے ہی اپنے شہر سے عازم سفر ہوا تھا، اور اس طرح وہ سلے ہوئے کپڑے اتارنے اور تلبیہ کہنے سے بھی محرم نہیں ٹھہرتا ، جب تک حج یا عمرہ کی نیت کرکے احرام نہیں باندھ لیتا۔
رسول اللہ ﷺ کے اس قول کی وجہ سے" اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کیلئے وہی ہے جس کی وہ نیت کرتا ہے "[ يہ حديث متفق عليہ ہے]
خارجہ بن زید بن ثابت اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا " کہ رسول اللہ ﷺ نے احرام کیلئے کپڑے اتارے اور غسل فرمایا۔ "[ يہ ترمذی کی روايت ہے]
صفائی یہ ہے کہ انسان بغل اور زیر ناف بال صاف کرے اور مونچھ اور ناخن کاٹے
عائشۃ رضی اللہ عنہا کی حدیث کی وجہ سے ، وہ فرماتی ہیں"میں رسول اللہﷺ کو خوشبو لگا کر دیا کرتی تھی احرام کیلئے جب وہ احرام باندھتے تھے "۔ [ يہ حديث متفق عليہ ہے]
کپڑے پر خوشبو نہیں لگائی جائے گی رسول اللہ ﷺ کے اس قول کی وجہ سے"تم نہ پہنو ایسے کپڑے جن کو زعفران یا ورس سے رنگا گیا ہو "[ يہ حديث متفق عليہ ہے]
رسول اللہﷺ کے اس قول کی وجہ سے"چاہیے کہ تم احرام میں ہو جاؤ دھوتی، چادر اور جوتیوں کے ساتھ، پس اگر تم میں سے کسی کو جوتیاں نہیں ملیں تو وہ موزے پہنے اور ان کو کاٹ لےیہاں تک وہ صرف پنڈلیوں تک رہ جائیں "[ يہ مسند احمدکی روايت ہے]
اور عورت جس لباس میں چاہے احرام باندھ سکتی ہے اسکے لئے کوئی مقرر رنگ نہیں ہے لیکن وہ زینت کے لباس اور آدمیوں کے ساتھ مشابہت سے اجتناب کرے، اور احرام میں نقاب بھی نہ پہنے اور نہ ہی دستانے
لیکن جب وہ اجنبی آدمیوں کے قریب ہو تو اسے چاہیے کہ وہ سر سے کپڑا لٹکا کر چہرے کو ڈھانپ لے جو کہ ثابت ہے حضرت عائشۃ سے وہ فرماتی ہیں " سوار ہم پر سے گزر رہے تھے اور ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے اس حال میں کہ ہم نے احرام باندھا ہوا تھا جب وہ ہمارے قریب آتے تو ہم سروں سے چادریں نیچے لٹکا کر چہروں کو ڈھانپ لیتیں اور جب وہ آگے بڑھ جاتے تو ہم چہروں کو واپس آشکار اکر لیتیں۔ "[اس حديث کو امام أبو داود نے روايت کيا ہے]
عبداللہ بن عمر کی حدیث کی وجہ سے کہ ایک آدمی نے رسول اللہﷺ سے کہا اے اللہ کے رسول محرم کونسے کپڑے پہن سکتا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے جواب دی"سلے ہوئے کپڑے، نہ پگڑیاں ، نہ شلواریں اور نہ ہی رومال پہنو "۔[ يہ حديث متفق عليہ ہے]
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس آدمی کے بارے میں جو احرام کی حالت میں فوت ہو گیا تھا "اسکے سر کو نہ ڈھانپو کیونکہ یہ قیامت کے دن آٹھایا جائےگا اس حال میں کہ یہ تلبیہ پڑھ رہا ہوگ "۔[ يہ بخاری کی حديث ہے]
پس اگر وہ کپڑا سر کے ساتھ چمٹا ہوا نہ ہو جیسا کہ حرم اگر چھتری، خیمہ ، گھر ، یا گاڑی کی چھت استعمال کرے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
مخیط سے مراد وہ کپڑا ہے جس کو جسم یا بعض جسم کے بقدر سیاگیا ہو جیسے شلوار ،قمیض،موزے،جرابیں،دستانے وغیرہ عبد اللہ ابن عمر کی اس حدیث کی وجہ سے جو پیچھے گزر گئی:" لَا تَلْبَسُوا الْقُمُصَ، وَلَا الْعَمَائِمَ، وَلَا السَّرَاوِيلاَتِ، وَلَا الْبَرَانِسَ، وَلَا الْخِفَافَ ۔"[ يہ حديث متفق عليہ ہے]
اگر احرام کا ارادہ رکھنے والے کو دھوتی نہیں ملی تو اسکو چاھیئے کہ وہ دھوتی ملنے تک شلوار پہن لے اور اگر جوتیاں نہیں ملیں تو موزے پہن لے رسول اللہ ﷺ کے قول کی وجہ سے " پس اگر احرام کا ارادہ رکھنے والے کو جوتیاں نہیں ملیں تو وہ موزے پہن لے اور ان کو کاٹ لے یہاں تک کہ وہ پنڈلیوں تک رہ جائیں "۔[ اس حدیث کو امام ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے]
اللہ جل شاُنہ کے اس قول کی وجہ سے" احرام کی حالت میں شکار کو قتل نہ کرو "
اور اللہ جل شاُنہ کے اس قول کی وجہ سے " تم پر خشکی کے شکار کو حرام کر دیا گیا ہے جب تک تم احرام کی حالت میں ہو "
اور خشکی کے شکار سے مراد جانوروں اور پرندوں میں سے وہ وحشی جانور ہے جس کا کھانا حلال ہے ۔
پالتو جانور شکار نہیں ہیں پس محرم کیلئے مرغی ، چوپایوں کو ذبح کرنا جائز ہے؛ اور دریا/تری کا شکار بھی جائز ہے اللہ جل شاُنہ کے اس قول کی وجہ سے " تمہارے لیے دریا کے شکار اور اسکے کھانے کو حلال کر دیا گیا ہے "
اللہ جل شاُنہ کے اس قول کی وجہ "تم اپنے سروں کے بالوں کو نہ منڈوانا یہاں تک کہ قربانی قربان گاہ تک پہنچ جائے "، سر کے بالوں پر قیاس کرتے ہوئے نہی جسم کے تمام بالوں کو شامل ہے۔
چاھے وہ ہاتھ کے ناخن ہوں یا پاؤں کے
محرم احرام باندھنے کے بعد جسم اور کپڑوں کو خوشبو نہیں لگا سکتا اور نہ ہی اسکے سونگھنے کا ارادہ کر سکتا ہے؛ ابن عمر کی پیچھے گزری ہوئی حدیث کی وجہ سے اس میں آیاہے " تم زعفران اور ورس میں رنگے ہوئے کپڑے نہ پہنو "[ يہ حديث متفق عليہ ہے]
اور اس حدیث کی وجہ سے کہ جب رسول اللہﷺ نے احرام کی حالت میں مرے ہوئے آدمی کے بارے میں فرمایا " تم اسکو خوشبو نہ لگاؤ " [ اس حدیث کو امام بخاری ے روایت کیا ہے]
حضرت عثمان کی حدیث کی وجہ سے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا " محرم نہ نکاح کر سکتا ہے اور نہ ہی اسکا نکاح کرایا جا سکتا ہے اور نہ ہی وہ کسی کو نکاح کا پیغام بھیج سکتا ہے۔ "[يہ مسلم کی حديث ہے]
یہ شرمگاہ میں وطی کرنے کو کہتے ہیں اللہ جل شاُنہ کےاس قول کی وجہ سے "پس جس نے ان دنوں میں احرام باندھنے کے ساتھ اپنے اوپر حج فرض کر گیا وہ جماع نہ کرے "
عبد اللہ ابن عباس نے فرمایا “پس رفث سے مراد جماع ہے” اور جماع احرام کی حالت میں سختی سے منع کی گئی چیزوں میں سے ایک ہے۔
جیسے عورت کے ساتھ بوس و کنار کرنا اسکو چھونا کیونکہ یہ چیزیں بھی وطی کا ذریعہ ہے اور سبب ہیں اس لیے یہ بھہ حرام ہیں ۔
عورت احرام کی پابندیوں میں مرد کی طرح ہے اور مندجہ ذیل چیزوں میں مختلف ہے:
1۔ وہ سلے ہوئے کپڑے پہن سکتی ہے۔
2۔ سر کو ڈھانپ سکتی ہے۔
3۔ نقاب اور دستانے نہیں پہن سکتی رسول اللہ ﷺ کے اس قول کی وجہ سے " محرم عورت نہ نقاب پہنے اور نہ ہی دستانے پہنے " [اس حدیث کو امام بخاری ے روایت کیا ہے]
عورت اجنبی آدمیوں کی موجودگی میں نقاب کے بغیر سر سے کپڑا لٹکا کر چہرہ ڈھانپے گی اور اس کیلئے سونے کے زیور پہننا جائز ہیں۔
1- احرام کی دو رکعتوں جنہیں سنت نماز کہا جاتا ہے کی کوئی اصل نہیں ہے جس طرح احرام کے وقت خاص دعا کا کوئی جواز نہیں ہے۔
2- اگر مسافر جہاز میں سفر کر رہا ہو اور اسے یہ ڈر ہو کہ جب وہ میقات پہنچے گا تو احرام نہیں باندھ سکے گا تو اسے چاہیئے کہ وہ اپنے گھریا ائیرپورٹ سے ہی احرام باندھ لے اور وہ صرف احرام کے کپڑے پہننے سے محرم نہیں بنے گا جب تک میقات کے قریب پہنچنے سے پہلے احرام اور حج یا عمرہ کی نیت نہیں کر لیتا۔
3- بعض حاجی احرام کے لباس پہنتے ہی دائیں کندھے کو ننگاہ کر لیتے ہیں اور اسےاضطباع کہا جاتا ہے یہ ٹھیک نہیں ہے پس اضطباع طواف قدوم کے وقت ہوتی ہے اس کے علاوہ دائیں کندھے کو ڈھانپا جائے ۔
جب مسلمان حج یا عمرہ کے سفر کا ارادہ کرے تو اس پر واجب ہے کہ مندرجہ ذیل نصیحتوں کا اہتمام کرے۔
1- اپنے آل و اولاد اور دوستوں کو تقویٰ کی وصیت کرے اور تقویٰ اوامر کو کرنے اور نواھی سے رکنے کا نام ہے۔
2- اگر اسکا کسی پر قرض ہو یا کسی کا اس پا قرض ہو وہ اسے دلیل و برھان یعنی گواہ کے ساتھ لکھ لے۔
3- حاجی پر واجب ہے کہ وہ تمام گناہوں سےنجات اور مغفرت کیلئے سچی توبہ کرے اے مؤمنوا تم سب اللہ کی طرف متوجہ ہو جاؤ شاید تم کامیاب ہو جاؤ۔
اللہ جل شاُنہ نے فرمای"اے ایمان والو! تم اللہ کے سامنے سچی توبہ کرو قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے گناہ دور کر دے اور تمہہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں "
4- اگر کسی پر کسی کا جانی ومالی یا عزت کا حق ہو تو وہ انکے متعلقین تک لوٹا دے یا سفر شروع کرنے سے پہلے وہ اپنے آپ کو اس سے آزاد کروالے رسول اللہﷺ کی اس حدیث کی وجہ سے " وہ آدمی جس کے پاس اپنے بھائی کا ظلم سے لیا گیا مال ہو یا عزت تو اسے چاھیئے کہ وہ اپنے آپکو اس سے آج ہی یعنی اس دنیا میں ہی آزاد کرالے اس سے پہلے کہ قیامت کا دن آجائے اور اس کے پاس نہ دینار ہوں اور نہ ہی درھم اگر اسکے کوئی نیک اعمال ہوں گےتو اسکے ظلم کے بقدر اس سے لے لئے جائیں گے اور اگر نیک اعمال نہیں ہیں تو مظلوم کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی " [يہ بخاری کی حديث ہے]
5- انسان کو چاھیئے کہ حج وعمرہ کیلئے حلال مال میں سے نفقہ مختص کرے رسول اللہﷺ کی اس حدیث کی وجہ سےجس میں آپ ﷺ فرماتے ہیں " بےشک اللہ جل شانہ پاک ہیں اور قبول نہیں کرتے مگر پاک مال اور اللہ جل شانہ نے مؤمنین کو بھی انہی چیزوں کا حکم دیا ہے جن کا رسولوں کو دیا ہے پس اللہ جل شانہ فرماتے ہیں: "اے رسولوا حلال اور پاک چیزوں میں سے کھاؤ اور نیک اعمال کرو " اور اللہ جل شانہ فرماتے ہیں "اے ایمان والواللہ کے دیے ہوئے پاک رزق میں سے کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو اگر تم صرف اس کی عبادت کرتے ہو " پھر ذکر کیا ایک ایسے آدمی کا جس نے لمبا سفر کیا ہوا اور اسکے بال غبار آلود پراگندہ ہوں دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھایا ہواور گڑ گڑا کر یارب یارب کی صدا لگا رہا ہو لیکن اسکا کھانا حرام کا ، پینا حرام کا ، پہننا حرام کا اور اسکی پرورش حرام سے کی گئی ہو پس کیسے اسکی دعا قبول کی جائے گی؟ [ يہ مسلم کی حديث ہے]
6- حاجی پر واجب ہے کہ حج و عمرہ سے مقصود صرف اللہ کی رضا ہونا چاہیئے اور ان بہترین مقامات پر جو اعمال و اقوال اس سے صادر ہو ں ان سے بھی مقصود صرف تقرب الی اللہ ہونا چاہیئے اور اسے اپنے حج سے دنیا کا حصول ، ریا، نیک نامی ، فخر کی مقصودگی سے مکمل اجتناب کرنا چاہیئے
7- حاجی کو چاہیئے کہ حج و عمرہ پر جانے سے پہلے وہ انکے متعلق تمام احکام سیکھ لے اور اگر کوئی مسئلہ سمجھ میں نہ آتاہو تو اس کے بارے میں پوچھ لے تاکہ اسے مکمل بصیرت حاصل ہو جائے افسوس کی بات یہ ہے بہت سارے حاجی حج کرنے تو چلے جاتے ہیں لیکن انہیں حج کی ادائیگی کی کیفیت کا علم نہیں ہوتا اس طرح انکے بہت سارے فرائض ساقط ہو جاتے ہیں جن کی وجہ سے انکا حج باطل ہو جاتا ہے۔
اگر غسل یا وضو میں سر پر مسح کے وقت محرم کے سر سے بال گر گئے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور اسی طرح اگر بغیر ارادے یا قصد کےاس کی مونچھوں داڑھی یا ناخنوں سے کچھ گر گیا تو کوئی حرج نہیں ہے اس میں مرد و عورت برابر ہیں
ضرورت یا مصلحت کیلئے محرم کا پاؤں باندھنا جائز ہے
- نیت میں شرط لگانا :
اگر کوئی آدمی بیمار ہو یا اسے کوئی ایسی چیز کے پیش آنے کا خوف ہو جو عبادت کے پورا کرنے میں حائل ہوتی ہو تو اسکے لیے مستحب ہے کہ وہ احرام کے وقت شرط لگائے اور کہے : میں حاضر ہوں اے اللہ میں عمرہ یا حج کے ساتھ حاضر ہوں لیکن اگر مجھے کسی روکنے والے نے روکا تو اسکا روکنا میرے لیے حلت ہوگی۔
حضرت عائشہ روایت کرتی ہوئی فرماتیں ہیں " رسول اللہﷺ ضباعۃ بنت زبیر کے پاس گئے اور ان سے کہا “ شاید آپ حج کا ارادہ رکھتیں ہیں؟ انہوں نے کہا میرا ارادہ تو ہے لیکن مجھے بیماری نے پکڑا ہوا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "حج کریں اور شرط لگائیں" اور کہیں یا اللہ میں حلال ہو جاؤنگی جب مجھے آپ نے روکا یعنی کسی حابس نے روکا حج کرنے سے " [يہ حديث متفق عليہ ہے]