میّت کے پاس اس وقت آنا مستحب ہے جب اس پر موت کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو جائیں اوراس وقت اسکو" لا إِله إِلا الله کی تلقین کرنی چاہیے"۔[ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]
آپ ﷺ کے قول کی وجہ سے "تم اپنے مُردوں کو " لا إِله إِلا الله " کی تلقین کیا کرو" اور جب وہ فوت ہو جائے تو اسکی آنکھیں بند کر دی جائیں اور کپڑے کے ساتھ ڈھانپ دیا جائے۔ اسکی تیاری، نماز جنازہ اور اسکے دفن میں جلدی کی جائے۔
میّت کو غسل دینا، اسکوکفن پہنانا،اس پر نمازجنازہ پڑھنا اور اسکو دفن کرنا فرض کفایہ ہے۔ اگر نماز جنازہ کچھ لوگ پڑھ لیں تو باقیوں سے ساقط ہو جائیگی۔
1۔ مناسب یہ ہے کہ مرد کو غسل کیلیے ایسے آدمی کو چُنا جائے جو ثقہ ہو، عادل ہوامانتدارہواور غسل کے احکام کو جانتا ہو۔
2۔ جسکو میّت نے وصیّت کی ہو اسکوغسل میں پہل کرنی چاہیے، پھر قریب ترین رشتہ داروں کو غسل دینا چاہیے،جوغسل کے احکام کو جانتے ہوں وگرنہ اسکو آگے کرنا چاہیے جو غسل کے احکام کو جانتا ہو۔
3۔ مرد مردوں کو غسل دیں اور عورتیں، عورتوں کو غسل دیں اور میاں بیوی بھی ایک دوسرے کو غسل دے سکتے ہیں۔ کیونکہ آپ ﷺ نے حضرت عائشہ رضي الله عنها سے فرمایا "نہیں نقصان دیگی تجھ کو اگرآپ مجھ سے سے پہلے وفات پا جائیں، میں آپکو غسل دوں گا، کفن پہناؤں گا اور آپ پر نماز پڑھوں اور دفن کروں گ" [یہ حدیث امام ابن ماجہ نے روایت کی ہے]
اور مرد اور عورت دونوں سات سال سے کم بچے بچیوں کو غسل دے سکتے ہیں اور کسی مسلمان مرد یا عورت کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی کافر کو غسل دے، اسکے جنازے کو اٹھائے، کفن دے، اس پر نماز پڑھے اگرچہ وہ انتہائی قریبی ہی کیوں نہ ہو جیسے باپ۔
4۔ لڑائی میں شہید ہونیوالے کو غسل نہیں دیا جائے گا نہ نماز پڑھی جائیگی بلکہ اسکو اسکے کپڑوں میں دفن کیا جائیگا۔
5۔ وہ حمل جو چار مہینوں کے بعد ضائع ہو اسکو غسل بھی دیا جائیگا، کفن بھی دیا جائیگا اور اس پر نماز بھی پڑھی جائیگی۔کیونکہ چار مہینوں کے بعد حمل انسان شمار ہوتا ہے۔
6۔ جس پانی سے غسل دیا جارہا ہو اسکا پاک ہونا ضروری ہے اور غسل باپردہ جگہ میں دیا جائے اور جس آدمی کا میت کے غسل کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہو اسکا وہاں آنا مناسب نہیں ہے۔
1۔ میّت کو غسل والی چارپائی پر رکھا جائے۔ باقی کپڑے اتار دیئے جائیں۔ اور اسکو کسی حجرے میں آنکھوں سے چھپایا جائے۔
2۔ غسل دینے والے کے لیے مستحب ہے کہ وہ غسل کے وقت اپنے ہاتھ پر کوئی کپڑا وغیرہ یا لفافہ وغیرہ چڑھا لے۔
3۔ غسل دینے والا میّت کے سر کو انسان کے بیٹھنے کے برابر بلند کرے۔ پھر اپنے ہاتھ کو اسکے پیٹ پر پھیرے اور دبائے پھر اسکی اگلی اور پچھلے شرمگاہ کو صاف کرے، جو نجاست وغیرہ لگی ہو اسے دھو دے۔
4۔ غسل کی نیّت کرے اور تسمیہ پڑھے۔
5۔ غسل دینے والا میّت کو نماز کے وضو کی طرح وضو کرائے مگر کلی نہ کرائے اور نہ ہی ناک میں پانی ڈالے۔ ناک اور منہ پر مسح کافی ہے۔
6۔ میّت کے سر اور اسکی داڑھی بیری کے پانی کے ساتھ یا صابن وغیرہ کے ساتھ دھوئے۔
7۔ پہلے دائیں طرف کو غسل دے پھر بائیں طرف کو پھر باقی جسم کو۔
8۔ آخری دھونے میں کافور کو ملالے۔
9۔ میّت کو خشک کرے۔
10۔ عورت کے بالوں کا جوڑا بنا لے اور اسکے پیچھے سے شروع کرے۔
- ایک مرتبہ دھونا واجب ہے جس سے صفائی حاصل ہو جائے اور تین مرتبہ دھونا مستحب ہے۔ اگرچہ صفائی پہلے ہی حاصل ہو چکی ہو۔
- اگر میّت کو پانی نہ ہونیکی وجہ سے غسل نہ دیا جاسکے یا اسکا جسم جل کر ٹکڑے ہو گیا ہو تو اسکو مٹی کے ساتھ تیمّم کرا لے۔
- غسل دینے والے کے لیے مستحب ہے کہ میّت کے غسل کے بعد خود بھی نہا لے۔
1۔ سُنّت یہ ہے کہ مرد کو تین کپڑوں میں لپیٹا جائے، روئی کا سفید کپڑا، ایسا کپڑا جو چمڑے کے ساتھ نہ لگے اور سارے جسم کو ڈھانپنے والا کپڑا ہو اور اس میں مبالغہ سے کام نہ لے۔
اور عورت کو پانچ روئی کے کپڑوں میں، سینہ بند ہو اور بڑی چادر اور قمیض اور دو لفافے۔
اور بچے کو ایک کپڑے میں اور تین کپڑوں میں بھی مباح ہے۔
اور چھوٹی بچی کو ایک قمیض اور دو لفافوں میں۔
2۔ تینوں کو لاکر انکو خوشبو کی دھونی دی جائے۔ کیونکہ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے "جب تم میّت کو دھونی دو تو طاق عدد میں دو"[ اس حدیث کو ابن حبان نے روایت کیا ہے]
3۔ ان کپڑوں کو بعض کو بعض پر لپیٹا جائے گا اور اس کے درمیان عنبر اورکافور کے ٹکڑوں کو رکھا جائے گا ۔ ہاں اگر میّت احرام والی ہو تو اسکے کپڑے کو خوشبو کی دھونی نہ دی جائے اور نہ خوشبو لگائی جائے۔ آپ ﷺ کے قول کی وجہ سے "اور اسکو خوشبو نہ لگاؤ"[یہ حدیث امام بخاری نے روایت کی ہے]۔
4۔ ان کپڑوں پر میّت کو سیدھا لٹا دیا جائے۔ پھر اوپر والے کپڑے کو بائیں طرف سے دائیں پہلو پر ڈال دیا جائے۔ پھر دائیں جانب کو بائیں پہلو پر ڈال دیا جائے۔
پھر دوسرا کپڑا، پھر تیسرا، پھر باقی کو اسکے سر کے پاس ، پھر رسی کے ساتھ باندھ دیا جائے تاکہ علیحدہ نہ ہو اور دفن کے وقت کھول دیا جائے۔
5۔ تمام جسم کو ڈھانپنا واجب ہے۔ اگر کپڑا چھوٹا ہے اور سارے جسم پر پورا نہیں آرہا تو اسکےسر کو ڈھانپ دے اور اسکے پاؤں پر خوشبو ڈال دے
بوجہ حضرت خباب کے قول جو مصعب بن عمیر رضي الله عنه کے قصے میں بیان کرتے ہیں "ہمیں رسول ﷺ نے حکم دیا کہ ہم اسکے سر کو ڈھانپ دیں اور ہم اسکے پاؤں پر اذخر درخت کے کچھ پتے ڈال دیں۔"[یہ حدیث امام بخاری نے روایت کی ہے]
6۔ احرام والے کو اسکے دو احرام والے کپڑوں میں ہی کفن دیا جائے اور محرم مرد کے سر کو نہ ڈھانپا جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا "غسل دو اسکو تم بیری والے پانی کے ساتھ اور اسکو دوکپڑوں میں کفن دو اور خوشبو کی دھونی نہ دواور اسکے سر کو ڈھانپو بے شک وہ قیامت کے دن تکبیر پڑھتا ہوا اُٹھے گا " [یہ حدیث امام بخاری نے روایت کی ہے]
1۔ قدرت کے ہوتے ہوئے قیام۔
2۔ چار تکبیریں۔
3۔ فاتحہ کی قراءت
4۔ نبی ﷺ پر درود بھیجنا
5۔ میّت کے لیے دعا۔
6۔ ترتیب قائم رکھنا۔
7۔ سلام پھیرنا
1۔ قراءت سے پہلے استغفار کرنا۔
2۔ اپنے لیے اور مسلمانوں کے لیے دعا مانگنا۔
3۔ آہستہ قراءت کرنا۔
4۔ زیادہ صفیں بنانا، تین یا اس سے زیادہ۔
اگر میّت مرد ہو تو امام میّت کے سر کے پاس کھڑا ہو اور اگر میّت عورت ہو تو میّت کے درمیان میں کھڑا ہو اور مقتدی امام کے پیچھے باقی نمازوں کی طرح کھڑے ہوں، پھر چار تکبیریں کہیں انکی تفصیل آنیوالی ہے۔ :
1۔ پہلے تکبیر تحریمہ کہے اور اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھے۔ اور دعا استفتاح نہ پڑھے پھر فاتحہ کی قراءت کرے۔
2۔ دوسری تکبیر کہے اور نبی ﷺ پر درود بھیجے جیسے آخری تشھد میں پڑھا جاتا ہے۔
3۔ تیسری تکبیر کہے اور اپنے لیے میّت کیلئے اور تمام مسلمانوں کے لیے دعا کرے اور دعا یہ ہے "اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ، وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ، وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ، وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ، وَاغْسِلْهُ بالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ، وَنَقِّهِ مِنَ الْخَطَايَا كَمَا نَقَّيْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيضَ مِنَ الدَّنَسِ، وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ، وَأَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ، وَزَوْجًا خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ، وَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ وَأَعِذْهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، أَوْ مِنْ عَذَابِ النَّارِ"[اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]
اور اگر میّت عورت ہو تو ضمیر مؤنث کو دعا میں لائے اور اگر میّت بچہ ہو یا سقط (پورا ہونے سے پہلے گر گیا) تو یہ دعا پڑھے" اللهم اجعله ذخرًا لوالديه، وفَرَطًا [الفرط: پہلا اور آگے] ، وأجرًا، وشفيعًا مجابًا "[اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]
4۔ چوتھی تکبیر کے بعد تھوڑا خاموش رہے پھراپنے دائیں جانب ایک سلام پھیر دے یا دو سلام۔
جب نماز جنازہ ختم ہو جائے تو سنت یہ ہے کہ جلدی سے میّت کو اسکی قبر کی طرف اٹھایا جائے۔اور پیچھے چلنے والوں کے لیے مستحب یہ ہے کہ وہ بھی جنازہ اٹھانے میں شریک ہوں۔
اور میّت کو قبر میں اتارنے والے کے لیے مسنون ہے کہ یہ پڑھے " بسم الله، وعلى ملة رسول الله "[اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے]
اور اسکو لحد میں دائیں پہلو پر لٹائے اور اسکا چہرہ قبلہ رخ کر دے پھر کفن کی گرہ کھول دے۔پھر مٹی کے ساتھ قبر کے سوراخ بند کردے۔
اور دفن میں حاضر ہونے والے کے لیے مسنون یہ ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں میں تین دفعہ مٹی لے اور قبر پر ڈال دے پھر قبر کو مٹی کے ساتھ ڈھانپ دیا جائے اور قبر کو زمین سے ایک بالشت کی مقداربلند کیا جائے اور اس پر کنکریاں اور پتھر رکھ دیے جائیں اور پانی چھڑک دیا جائے اور قبر کے کسی ایک طرف پتھر رکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے یا دونوں طرف تاکہ قبر کا پتہ چل سکے۔
میت کے اہل و عیال چونکہ غم زدہ ہوتے ہیں انکے پاس تعزیت کے لیے جانا مستحب ہے تاکہ ان کے غم میں شریک ہو کر ان کے غم کو ہلکا کیا جاسکے اور انکو صبر کی تلقین کی جائے۔
اور تعزیت کسی بھی کلمات سے کی جا سکتی ہے جیسا کہ وہ یہ کہے کہ اللہ ہی کا تھا جو اس نے لے لیا اور اللہ ہی کے لیےہے جو وہ عنایت کرتا ہے۔ " اسکے ہاں ہر چیز کے لیے ایک وقت مقرر ہے۔ پس آپ صبر کریں اور اپنا احتساب کریں "۔ [اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]
اور اگر کہے " أعظم الله أجرك، وأحسن عزاءك وغفر لميتك "وغیرہ۔
جنازوں کےساتھ عورتوں کا نکلنا غیر شرعی امر ہے کیونکہ أُمِّ عَطِيَّةَ -رضي الله عنها سے مروی ہے فرماتی ہیں " ہمیں جنازوں کے پیچھے چلنے سے منع کیا گیا ہے "[ اس حدیث کو امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے]
مُردوں کے لیے دعا اور نصیحت کی غرض سے قبروں کی زیارت کرنا مسنون ہے آپ ﷺ نے فرمایا " میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا تھا۔ پس تم زیارت کرو بے شک وہ تمہیں آخرت کی یاد دلائے گی "[اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]
اور قبر کی زیارت کے وقت یہ دعاء منقولہ پڑھے " السلام عليكم دار قوم مؤمنين، وإِنا إِن شاء الله بكم لاحقون "[اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]
یا " السلام على أهل الديار من المؤمنين والمسلمين، ويرحم الله المستقدمين منا والمستأخرين، وإِنا إِن شاء الله بكم للاحقون "[اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے] " أسأل الله لنا ولكم العافية "[اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]
اگر مُردوں کےلیے اپنے الفاظ میں مغفرت اور رحمت کی دعاء کردی تو یہ بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
اور قدرت پر ناراضگی کا اظہار کرنا اور میت کے اچھے کام یاد کر کے زور زور سے رونا منع ہے آپ ﷺ نے فرمایا " نوحہ کرنے والی جب اپنی موت سے پہلے توبہ نہ کرے اور وہ قیامت کے دن اٹھے گی اور اس پر پگھلے ہوئے پیتل کی قمیض ہو گی " [اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]
آپ ﷺ نے فرمایا "جو رخساروں کو پیٹے اور گریبان چاک کرے اور جاہلیت کی پکار لگائے وہ ہم میں سے نہیں ہیں" [اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]
ابن عباس رضي الله عنه سے مروی ہے فرماتے ہیں " آپ ﷺ نے قبروں کی زیارت کرنے والیوں پر، ان پر مساجد بنانیوالوں پر اور چراغ جلانے والوں پر لعنت کی ہے "[اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے]
حضرت جابر رضي الله عنه سے مروی ہے کہ " آپ ﷺ نےقبروں پر چونا کرنےسے اور اس پر مجاورت اختیار کرنے سے اور عمارت بنانے سے منع کیا ہے " [اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]
اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ مردے نفع اور نقصان دے سکتے ہیں تو یہ شرک ہے کیونکہ اللہ کے سوا کوئی بھی نفع اورنقصان کا مالک نہیں ہوں۔ اللہ نے فرمایا " کہہ دیجیے کہ میں کسی نفع یا نقصان کا مالک نہیں ہے مگر اللہ جو چاہے " (اعراف : 188)۔
آپ ﷺ نے فرمایا " اللہ نے یہودونصاریٰ پر لعنت کی ہے کہ انہوں نےاپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھ "[ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]
1۔ جسکی نماز جنازہ فوت ہو جائے تو میّت کی قبر کے پاس نماز جنازہ پڑھے، چاہے دفن سے پہلے یا دفن کے بعد کیونکہ آپ ﷺ سے اس عورت کے قصّے میں مروی ہے جو مسجد کی صفائی کرتی تھی کہ آپ ﷺ نے اسکی قبر پر نماز جنازہ پڑھی۔ [ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]
2۔ میّت کے گھر والوں کےلیے کھانا تیار کرنا بھی مستحب ہے کیونکہ وہ اپنی مصیبت میں ہونے کی وجہ سے کھانا تیار کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔
جیسے کہ روایت ہے" کہ آل جعفر کے ہاں فوتگی ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ آل جعفر کے لیے کھانا تیار کرو کیونکہ ان کے ہاں ایسا واقعہ ہوا ہے جس نے انکو مشغول کر دیا ہے "[اس حدیث کو امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے]
3۔ میّت پر بغیر آہ وبکا،بغیر ناراضگی اور بغیر آواز بلند کیےرونا جائز ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا "جب آپ ﷺ کا لخت جگر ابراہیم فوت ہوا بے شک آنکھ رو رہی ہے اور دل غمگین ہے۔ ہم اللہ کی رضا کے سوا کچھ نہیں کہتے۔ اور ہم اے ابراہیم تیری جُدائی پر غمگین ہیں"[ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]
4۔ جنگ میں شہید ہونیوالے کو اسی کپڑے میں دفن کیا جائے جس میں وہ شہید ہوا نہ غسل دیا جائے، نہ نماز پڑھی جائے۔ " کیونکہ نبی اکرم ﷺ نےاُحد کے شھداء کو انکے جوتوں میں دفن کا حکم دیا اور انکو غسل نہیں دیا گی "۔[ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]
5۔ جب محرّم، حج یا عمرہ کرتے ہوئے فوت ہو جائے اسکو نہ ہی غسل دیا جائے اورنہ ہی خوشبو لگائی جائے اور نہ اسکے سر کو ڈھانپا جائے اور اس کی نماز جنازہ پڑھی جائیگی کیونکہ آپ ﷺ نے اس شخص کے بارے فرمایا "جو فوت ہو گیا اور اس نے حج کا احرام باندھا ہوا تھا اسکو تم بیری والے پانی کے ساتھ غسل دو اور دو کپڑوں میں کفن دو اور دھونی نہیں دینی چاہیے اور نہ اسکے سر کو ڈھانپو۔ بے شک وہ قیامت کے دن تلبیہ کہتے ہوئے اٹھے گ "۔[ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]