یہ ہے کہ قربانی کے دن اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کیلئے جو جانور ذبح کیا جائے۔
یہ ہے کہ قربانی کے دن اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کیلئے جو جانور ذبح کیا جائے۔
یہ سنت مؤکدہ ہے اللہ تعالیٰ کے قول کی وجہ سے: " اپنے رب کیلئے نماز پڑھواور قربانی دو "
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ " آپﷺ نے دو دھاری دار سینگوں والے مینڈھوں کی قربانی دی آپﷺ نے انکے گدی پر پاؤں رکھ کر بسم اللہ اور تکبیر کیساتھ ذبح کیا۔ "[ يہ ترمذی کی حديث ہے]
قربانی والے دن عید کی نماز کے بعد شروع ہوتا ہے اور ایام تشریق کے آخری دن سورج غروب ہونے تک رہتا ہے ، ایام تشریق ذی الحجہ کے تین دنوں “11 ، 12 ، 13” کو کہتے ہیں۔
1- ایک بکری ایک شخص کیلئےکافی ہو جائے گی، اور قربانی کے اجر میں جس کو چاہے شریک کرے؛ آپﷺ نے جب قربانی کی تو آپﷺ نے فرمای" اے اللہ اسے محمدﷺ کی طرف سے قبول کر آل محمد کی طرف سے قبول کر اور امت محمد کی طرف سے قبول کر”۔ "[ يہ متفق عليہ حديث ہے]
2- ایک بیل اور اونٹ سات آدمیوں کیلئے کفایت کرتا ہے اور اونٹنی میں بھی سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں اور یہی حکم گائے کا بھی ہے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے " کہ آپ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اونٹ اور بیل میں سات آدمی شریک ہوں اور اونٹنی کے بارے میں بھی یہی حکم دیا ہے۔ "[ يہ مسلم شريف کی حديث ہے]
- بھیڑ اور دنبہ 6 ماہ سے کم نہ ہو۔
- بکرا اور بکری ایک سال سے کم نہ ہو۔
- گائے اور بیل دو سال سے کم نہ ہو۔
- اونٹ اور اونٹنی پانچ سال سے کم نہ ہو۔
بہترین قربانی اونٹ ہے جب کہ پورا کا پورا ایک شخص قربان کرے کیونکہ مہنگا بھی ہے اور فقراء کیلئے زیادہ گوشت بھی میسر ہو گا ، پھر پوری گائے یا بیل کا درجہ ہے پھر بکری ، بھیڑ ، دنبہ اور اسکے بعد اونٹ کا ساتواں حصہ اور پھر بیل یا گائے کا ساتواں حصہ ہو۔
- کانا جانور :
اور وہ یہ ہے کہ اسکی آنکھیں بھینگیں ہوں اور اسمیں اندھا بھی شامل ہے
- لنگڑا ولولا جانور :
یہ وہ جانور ہے کہ جواتنا کمزور کہ وہ چلنے پر بھی قادر نہ ہو۔
- پاگل :
اور پاگل جانور کی قربانی بھی جائز نہیں ہے۔
- ایسا بیمار جانورکہ اسکا مرض صاف نظر آ رہا ہو
اور اسکی دلیل حضرت براء بن عازب کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا " ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے جس کا کانا پن واضح ہو اور نہ لنگڑے جانور کی جسکا لنگڑا پن واضح ہو اور نہ بیمار جانور کی جسکا مرض واضح ہو، اور نہ ہی ایسےجانور کی جو کمزوری کی وجہ سے اپنے آپ کو نہ سنبھال سکتا ہو۔" [يہ مسلم کی روايت ہے]
- دم کٹا :
جس کی کوئی پونچھ نہ ہو۔
- بغیر سینگوں والا :
جس کے پیدائشی سینگ نہ ہوں۔
- خصی :
وہ دنبی جس کے خصیتین ھاٹ دیے گئے ہوں۔
اگر جانور کے کان میں چھوٹا سا سراخ ہے ہا کان معمولی کٹا ہوا ہے تو اسکی قربانی کرنے میں کوئی حرج نہیں ، مذکورہ بالا احکام حج کی قربانی کے ہیں فدیہ اور ھدی کے جانوروں پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔
قربانی کرنے والا اپنی قربانی کا ثلث گوشت خود استعمال کرے اور ثلث ھدیہ کر دے اور باقی ثلث صدقہ کرے اگر وہ تمام گوشت صدقہ کردے تو افضل ہے اور اگر ثلث سے زیادہ خود استعمال کرے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
جب کوئی شخص قربانی کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ذی الحجہ کے پہلے عشرۃ میں اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے حضرت ام سلمۃ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا " کہ تم میں سے اگر کوئی شخص قربانی کا ارادہ کرے تو ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں میں اپنے ناخن اور بال نہ کاٹے ۔ " [يہ مسلم کی روايت ہے]
اور نہ اپنے جیسے آل و اولاد جس شخص کی طرف سے قربانی دی جا رہی ہو تو اسکے لیے یہ تمام کام حرام نہیں ہیں ۔