مسلمانوں کی دو عیدیں ہیں: ماہ رمضان کے بعد عید الفطر اور یوم العرفہ کے بعد عید عید الاضحی اور اللہ نے ہمیں جاہلیّت کی عیدوں اور ہر بدعت کی عید کے بدلے یہ دو عیدیں عطا کی ہیں۔
حضرت انس بن مالک رضي الله عنه سے مروی ہے، فرماتے ہیں ! اہل جاہلیّت کے لیے ہر سال دو دن ہوتے تھے وہ ان میں کھیلتے تھے۔ جب آپ ﷺ مدینہ میں آئے تو فرمایا "تمہارے لیے ددو دن تھے جن میں تم کھیلتے تھے اور اللہ نے تمہیں انکے بدلے میں ان سے بہتر عطا کیا۔ یوم الفطر اور یوم الاضحی"[ اس حدیث کو امام نسائی نے روایت کیا ہے]
اور کفار کی عیدوں میں شرکت کرنا جائز نہیں ہے۔کیونکہ عیدیں کسی بھی دین کی علامات، شرائع اور طریقوں کو ظاہر کرتی ہیں۔ اللہ نے فرمایا "ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے شریعت اور راستہ بنای" (المائدہ : 48)۔
اور اللہ نے دونوں عیدوں میں ایک نماز مشروع کی ہے جوکہ عید کی نماز ہے اور وہ مظاہر عید میں سے سب سے اہم مظہر ہے۔
عیدین کی نماز فرض کفایہ ہےاگر کوئی ایک شخص نماز ادا کر دے تو باقی لوگوں سے اسکا گناہ ساقط ہو جاتا ہے۔ ہاں مگر اس کے بارے میں بہت تاکید وارد ہوئی ہے کیونکہ آپ ﷺ نے بوڑھوں اور عورتوں کو اسکی ادائیگی کا حکم دیا۔
یہاں تک کہ حیض والی عورتیں اگرچہ وہ نماز ادا نہیں کر سکتیں لیکن پھر بھی ان کو عید گاہ کی طرف جانے کوکہا گیا ہے اس سے اس نماز کی فضیلت اور تاکید واضح ہوتی ہے اور اس کی فرضیت پر دلیل قرآن کی یہ آیت کریمہ ہے
1۔ اللہ کا قول! "اپنے رب کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر۔" ( الکوثر : 2 )
2۔ نبی ﷺ پاک کا اسکا حکم دینا حتیٰ کہ عورتوں کو بھی حکم دیا۔ حدیث اُ ﷺ مّ عطیہ رضي الله عنها کی وجہ سے فرماتی ہیں! "آپ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم عید الفطر اور عید الاضحی کے دن نوجوان لڑکیوں، حیض والیوں اور باکرہ لڑکیوں کو عید گاہ کی طرف نکالیں اور یہ کہ حیض والیاں نماز ادا نہ کریں لیکن مسلمانوں کے ساتھ دعا میں شریک ہوں "[اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]
عید کی نماز کا وقت سورج کے بلند ہونے سے آنکھ کے دیکھنے میں ایک نیزے کی مقدار ہے۔ اور اس مقدار سورج کے طلوع ہونیکے چوتھائی ساعۃ سے زوال تک ہے۔
عید الاضحی کی نماز کو جلدی پڑھنا سُنّت ہے۔ تاکہ قربانی کا وقت کشادہ ہو۔ اور عید الفطر کی نماز کو مؤخّر کرنا تاکہ صدقہ فطر اور زکوٰۃکے نکالنے کے وقت میں وسعت ہو۔
عیدین کی نماز کی دو رکعتیں ہیں۔ بغیر اذان اور بغیر اقامت کے۔ ان دونوں میں قرات اونچی آواز میں کرے گا۔
1۔ تکبیر تحریمہ کے بعد اور ثناء اور تعؤذ سے پہلے سات تکبیرات کہے گا۔
2۔ اسکے بعد اعوذ با للہ ، بسم اللہ، فاتحہ کے بعد سورۃ العلیٰ پہلی رکعت میں اور سورۃ قمر دوسری رکعت میں۔
3۔ اور دوسری رکعت میں تکبیر انتقال کے بعد پانچ تکبیریں کہے۔ اور صحیح یہ ہے کہ ہر تکبیر میں اپنے ہاتھوں کو بلند نہ کرے۔
4۔ تکبیرات کے دوران اللہ کی حمد وثناء بیان کرے اور نبی ﷺ پاک پر درود بھیجے ۔
5۔ جب نماز سے سلام پھیرے تو منبر پر چڑھ جائے اور دو خطبے دے اور دونوں کے درمیان ہلکی یا مختصر سی بیٹھک بھی کرے۔
6۔ خطیب عیدالفطر کے دونوں خطبوں میں ان امور کو زیر بحث لائیں جو حال اور مقام کے منازب ہوں۔اور عید الاضحیکے خطبوں میں قربانی کے احکام بیان کرنے کے ساتھ ساتھ موقع و محل کے مناسب امور کو بھی زیر بحث لائے۔
عیدین کی نماز مسجد میں نہیں بلکہ عید گاہ میں ادا کرنا سنت ہے۔ اگر ضرورت کے پیش نظر مسجد میں بھی پڑھ لی گئی تو کوئی حرج نہیں ہے۔
1۔ عید کے مستحبات میں سے ایک مستحب یہ ہے کہ مرد اپنے آپ کو اچھے کپڑے پہننے کے ساتھ خوبصورت بنائے بہرحال عورتیں بغیر خوبصورتی کے اور بغیر خوشبو لگانے کے عید کی نماز کے لیے نکلیں گی۔۔
2۔ مقتدی آنے میں جلدی کرتے ہوئے اگلی صفوں میں پہنچنے کی کوشش کریں۔
3۔ ایک راستے سے جائے اور دوسرے سے لوٹے۔ اگر ممکن ہو تو پیدل چل کر جائے۔حضرت جابر رضي الله عنهسے مروی ہے فرماتے ہیں "نبی اکرم ﷺ عید کے دن راستے کو بدلتے تھے۔"[ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیاہے]
4۔ اور عیدالفطر کیلیے نکلنے سے پہلے تین یا پانچ طاق عدد میں کھجوریں کھا لے اور عید الاضحی میں عید کی نماز سے لوٹنے کے بعد کھائے۔
5۔ عید الفطر کی نماز کو دیر سے پڑھنا مستحب ہے تاکہ مسلمان زکوٰۃ الفطر کو آسانی سے دے سکیں اور مستحقین تک پہنچ جائے۔ البتہ عید الاضحی کی نماز کو جلدی پڑھنا مستحب ہے۔
1۔ عید کی نماز سے پہلے اور بعد میں نفل پڑھنا مکروہ ہے۔ البتہ اگر عید کی نماز مسجد میں ادا کی جا رہی ہو تو مسجد میں داخل ہوتے وقت، تحیۃ المسجد ادا کرلے۔
2۔ کسی کی عید کی ساری یا بعض نماز رہ جائے تو جس طرح عید کی نماز پڑھی جاتی ہےاسی طریقے پر قضاء کرے اور وہ یہ کہ دو رکعتیں انکی تکبیرات کے ساتھ پڑھے جو رہ جائے اسکو اپنے طریقے پر پورا کرے۔
3۔ عید کی تکبیر ان الفاظ کے ساتھ ہو " الله أكبر، الله أكبر، لا إله إلا الله، والله أكبر، الله أكبر، ولله الحمد " اور ان الفاظ کے ساتھ " الله أكبر الله أكبر الله أكبر كبيرا "
4۔ مردوں کے لیے تکبیر کی آواز کو بلند کرنا مسنون ہے لیکن عورتیں آہستہ پڑھیں اس لیے کہ عورتوں کو پست آواز کا حکم دیا گیا ہے۔
5۔ عید الفطر میں صبح کی نماز سے تکبیرات کی ابتدا کی جائے اور امام کے نماز کے لیے نکلنے تک تکبیرات پڑھی جائیں۔ اور عید الاضحیٰ میں یوم عرفہ کی صبح سے ایام تشریق کا سورج غروب ہونے تک یعنی تیرھویں دن کا سورج غروب ہونے تک تکبیرات پڑھی جائیں۔
پس عید گاہ کی طرف جاتے ہوئے، عید گاہ میں امام کے پہنچنے تک، جماعت کے ساتھ ادا کی جانے والی فرض نمازوں کے بعد، شہروں اور بازاروں میں تکبیرات پڑھی جائیں۔
1۔ مستحب یہ ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کو عید کی مبارکباد دیں، کہا جائے " تقبل الله منا ومنك "
2۔ عید کے دن خوش ہونا اور اسکو ظاہر کرنا مستحب ہے اور مسلمان اپنے قریبی رشتے داروں،دوستوں اور مسلمانوں، بھائیوں کو مبارکباد دے۔
3۔ عید کے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ آپس کی رنجشیں ختم کریں۔صلہ رحمی قائم کریں اور جانی دشمنوں کے درمیان صلح کروائیں۔
4۔ عید کے دن پہ قبروں کی زیارت کرنا جائز نہیں ہے۔کیونکہ وہ عید کی خوشیوں کے خلاف ہے۔
5۔ عیدین میں اہل وعیال پر لباس میں، کھانے پینے میں اور حلال کردہ نعمتوں میں وسعت کا مظاہرہ کرنا چاہیے یعنی ان پر ان چیزوں کے ضمن میں خوب خرچ کرنا چاہیے ۔
عید کے دو دن خوشی کے دن ہیں۔ اللہ نے فرمایا " کہہ دیجیے کہ پس لوگوں کو اللہ کے اس انعام اور رحمت پر خوش ہونا چاہیے وہ اس سے قدرے بہتر ہے جس کو وہ جمع کرتے ہیں " (یونس : 58)
6۔ مسلمانوں کیلئے جائز نہیں ہے کو وہ عید کی خوشیوں کا اظہار ایسے طریقے سے کریں جو اسلام کی تعلیمات اور اسکے آداب کے خلاف ہو۔
مثلاً اگر عید کی خوشیوں کے اظہار میں مردوں اور عورتوں کا آپس میں اختلاط ہوتا ہے، نمازیں ضائع کی جاتی ہیں، حرام کام کا ارتکاب کیا جاتا ہے، گانے وغیرہ سنے جاتے ہیں تو یہ جائز نہیں ہے۔