رمضان میں کسی عذر کی وجہ سے روزہ افطار کرنا اور روزے کی قضاء کرنا

4782

وہ عذر جن کی وجہ سے رمضان میں روزہ نہ رکھنا جائز ہے

1۔ بیماری

مریض کے لیے رمضان میں روزہ نہ رکھنا جائز ہےکیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں" تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی کو پورا کرے یعنی روزوں کی قضاء کر لے۔"

ہر مرض یا بیماری کی وجہ سے روزہ نہ رکھنا جائز نہیں بلکہ جس بیماری کی وجہ سے مریض کے تکلیف میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہو یا کسی قسم کا نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو اس کی وجہ سے نہ رکھنا جائز ہے۔

- مریض کا بیماری کی وجہ سے روزے کو چھوڑ دینا۔

اگر مریض نے بیماری کی وجہ سے روزہ چھوڑ دیا اور بیماری کے ٹھیک ہونے کی امید بھی ہو تو ٹھیک ہوتے ہی اس پر ان دنوں کی (جس میں اس نے روزے چھوڑے تھے) قضاء واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں "تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو اور دنوں میں گنتی کو پورا کرے"

اور اگر بیماری ایسی ہو جس کے ٹھیک ہونے کی امید نہ ہو یا اگر انسان عمر میں بڑا ہونے کی وجہ سے روزہ رکھنے سے مکمل طور پر عاجز ہو تو وہ ہر روز فدیے میں آدھا صاع [صاع کی مقدار: سوا دو کلو (یعنی2.25 کجم) ہے ۔ پس ہر روز کا کھانا تقریباً ایک کلو 1125 گرام بنتا ہے] چاول یا اس جیسی کوئی اور چیز دے دیا کرے۔

2-سفر

مسافر کے لیے رمضان میں روزہ نہ رکھنا جائز ہے اور اس پر قضاء واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں "تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی کو پورا کرے"

وہ سفر جس کی وجہ سے قصر نماز پڑھی جاتی ہو اور وہ جازئز مقصد کے لیےہو تب اس کی وجہ سے رمضان میں روزہ نہ رکھنا جائز ہے البتہ جو سفر گناہ کی غرض سے کیا جا رہا ہو یا اسی وجہ سے کیا جا رہا ہو کہ روزے سے جان چھوٹ جائے تو اس کی وجہ سے روزہ نہ رکھنا جائز نہیں ہے اور اگر مسافر نے روزہ رکھا تو جائز ہے

کیونکہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں "ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ سفر کرتے تھے تو دوران سفر روزہ رکھنے والا، روزہ نہ رکھنے والے کو اور نہ ہی نہ رکھنے والا، رکھنے والے کو ملامت کرتا " [امام بخاری نے اس کو روایت کیا ہے]

لیکن مسافر کے لیے سفر میں اس شرط پر روزہ رکھنا جائز ہے کہ روزہ رکھنے کی وجہ سے اس کے مشقت اور تکلیف میں مبتلا ہونے کا خوف نہ ہواور اگر تکلیف میں مبتلا ہونے کا خوف ہو تو پھر اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ روزہ نہ رکھے، کیونکہ رسول اللہﷺ نے سفر میں ایک آدمی کو دیکھا کہ سخت گرمی کی وجہ سے اس پر سایہ کیا جارہا تھا اور لوگ اس کے اردگرد جمع تھے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا "سفر میں روزہ رکھنا نیکی میں سے نہیں ہے" [ امام بخاری نے اس کو روایت کیا ہے]

3-حمل اور دودھ پلانے کی وجہ سے روزے کا چھوڑنا۔

حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو اگر روزہ رکھنے کی وجہ سے نقصان کا خوف ہو تو وہ روزہ چھوڑ دے اور پھر مریض کی طرح اسکی قضا کرے کیونکہ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں "اللہ تعالیٰ نے مسافر سے روزے اور آدھی نماز کو ساقط کر دیا ہے اور حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت سے صرف روزے کو ساقط کر دیا ہے" [امام ترمذی نے اس کو روایت کیا ہے]

اور اگر ان دونوں کو روزہ کی وجہ سے اپنے جان کے بارے میں کوئی خطرہ اور خوف نہ ہو البتہ بچے کے نقصان کا خوف ہو تو پھر بھی وہ روزہ چھوڑ سکتی ہیں اور پھر چھوڑتے ہوئے روزوں کی قضاء کرنی پڑے گی البتہ اس صورت میں ان کو ہر روز مسکین کے کھانا بھی کھلانا پڑے

گا کیونکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں "اور حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو اگر روزہ رکھنے کی وجہ سے اپنی اولاد کو نقصان پہنچنے کا خطرہ اور خوف ہو تو وہ دونوں افطار کریں اور مسکین کو کھانے کھلائیں" [امام ابو داؤد نے اس کو روایت کیا ہے]

4-حیض اور نفاس کی وجہ سے روزہ چھوڑنا

جس عورت کو حیض اور نفاس کا خون آتا ہو اس پر روزہ نہ رکھنا واجب ہے اور اگر اس نے روزہ رکھا تو ٹھیک نہیں ہے اور ان دونوں پر حیض اور نفاس سے صاف ہونے پر چھوڑے ہوئے دنوں کے روزوں کی قضاء واجب ہے

کیونکہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ حائضہ پر روزوں کی قضاء تو واجب ہے البتہ نماز کی قضاء واجب نہیں ہے اسکی کیا وجہ ہے؟ تو انہوں نے کہا "جب ہم پر ایسی حالت آتی تو ہمیں روزوں کی قضاء کا حکم دیا جاتا البتہ نمازوں کی قضاء کا حکم نہیں دیا جات" [اس پر امام بخاری اور امام مسلم کا اتفاق ہے]

روزوں کی قضاء کا طریقہ

- جس مسلمان نے بغیر عذر کے رمضان کا روزہ چھوڑ دیا تو اس پر واجب ہے کہ وہ توبہ و استغفار کرے کیونکہ یہ بہت بڑا گناہ ہے اور اسے چاہیے کہ رمضان کے گزرتے ہی وہ فوراً اسکی قضا کرے کیونکہ اصل روزے میں وقت پر ادا کرنا ہے۔

- اوراگر کسی نے عذر کی وجہ سے (جیسے حیض، نفاس، بیماری، سفر اور ان جیسے دوسرے عذر جن کی وجہ سے سے روزہ چھوڑنا جائز ہے) روزہ چھوڑ دیا تو اس پر بھی قضاء واجب ہے البتہ فوراً واجب نہیں ہے بلکہ دوسرے رمضان تک جب چاہے قضا کر سکتا ہے

کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں "مجھ پر رمضان کے روزوں کی قضاء واجب ہوئی تھی لیکن میں ان کی قضاء شعبان کے مہینے سے پہلے نہیں کر سکتی تھی، حضرت یحیٰ فرما تے ہیں رسول اللہﷺ کی طرف سے مشغولیت کی وجہ سے یا ، رسول اللہﷺ کے ساتھ مشغولیت کی وجہ سے میں ان کی قضاء شعبان سے پہلے نہیں کر پاتی تھی" [اس پر امام بخاری اور امام مسلم کا اتفاق ہے]

- لیکن جلدی قضا کرنا اس لیے مستحب ہے کہ ایک تو اس سے انسان کے ذمہ سے ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے اور دوسرا احتیاط بھی اسی میں ہے تاکہ انسان کسی ایسی چیز میں مبتلا نہ ہو جائے جس کی وجہ سے رہ روزہ نہ رکھ سکے جیسے بیماری وغیرہ۔ اور اگر وہ کسی عذر کی وجہ سے دوسرے رمضان کے پہنچنے تک اس کی قضا نہ کر سکا تو وہ دوسرے رمضان کے بعد قضاء کرے۔

- اور اگر بغیر عذر کے اس نے دوسرے رمضان تک قضاء نہ کی تو جمہور فقہاء کے نزدیک اس پر دوسرے رمضان کے بعد قضاء کے ساتھ ہر روزہ کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلانا بھی لازم اور واجب ہے البتہ احناف اور اہل الظواہر کے نزدیک اس پر فدیہ واجب نہیں ہے۔

- اور قضاء میں تسلسل شرط نہیں ہے بلکہ وہ تسلسل اور متفرق دونوں طریقوں سے قضاء کر سکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں "تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی کو پورا کر لے " پس اللہ تعالیٰ نے قضاء میں تسلسل کو شرط قرار نہیں دیا اگر شرط ہوتا تو ضرور بیان فرماتے۔

- جس آدمی پر رمضان کے روزوں کی قضا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ پہلے رمضان کے روزوں کی قضاء کرے اور پھر نفلی روزے رکھے کیونکہ فرض نفلوں سے مقدم ہے البتہ اگر اس نے قضاء کرنے سے پہلے نفلی روزے

رکھ لیے تو جائز ہے اور خصوصاً وہ نفلی روزے رکھنا جائز ہیں جن کی فضیلت کے فوت ہونیکا خطرہ ہو (جیسے عاشوراء کا روزہ ، عرفات کے دن کا روزہ، شوال کے چھ روزے) کیونکہ قضاء کا وقت تو وسیع ہے اگرچہ بہتر یہی ہے کہ وہ پہلے فرض روزوں کی قضاء کرے۔

- جو آدمی عذر کی وجہ سے روزوں کی قضاء نہ کر سکا یہاں تک کہ فوت ہو گیا اس پر کچھ بھی نہیں ہے اور اگر اس نے بغیر عذر کے قضاء نہ کی یہاں تک کہ فوت ہو گیا تو پھر اس کی طرف سے رمضان کے روزوں میں ہر روزے کے بدلے میں مسکین کو ہر روز کھانا کھلایا جائے گا اور اگر وہ نذر کے روزے ہوئےیعنی اگر اس نے نذ ر مانی کہ میں روزے

رکھوں گا اور پھر نہیں رکھے یہاں تک کہ فوت ہو گیا تو پھر اس کی طرف سے رمضان کے روزوں میں ہر روزے کے بدلے میں مسکین کو ہرروز کھانا کھلایا جائے گا اور اگر وہ نذر کے روزے ہوئے یعنی اگر اس نے نذر مانی کہ میں روزے رکھوں گا۔اور پھر نہیں رکھے یہاں تک کہ فوت ہو گیا تو پھر وہ روزے اس کا ولی اس کی طرف سے رکھے گا۔

اور بعض علماء فرماتے ہیں کہ دونوں صورتوں میں اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے گا یعنی چاہے فرض روزے ہوں یا نفلی روزے ہوں اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے گا کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں عمومیت پائی جاتی ہے وہ فرماتی ہیں " کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو آدمی فوت ہوا اس حال میں کہ اس پر روزے تھے تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے گا۔ " [اس پر امام بخاری اور امام مسلم کا اتفاق ہے]

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں "کہ رسول اللہﷺ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ میری والدہ فوت ہو گئی اور اس پر ایک مہینہ کے روزے ہیں۔ کیا یہ روزے میں اس کی طرف سے قضاء کر لوں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جی ہاں۔ فرمایا اللہ تعالیٰ کا فرض زیادہ مستحق ہے اس بات کے کہ اس کی قضاء کی جائے" [اس پر امام بخاری اور امام مسلم کا اتفاق ہے]