فرض نمازوں کے لیے ایک وقت مقرّر ہے اور انکی ادائیگی نہ اس وقت سے پہلے ٹھیک ہے اور نہ بعد میں جائز ہے البتہ کسی عذر کی وجہ سے ادائیگی وقت سے پہلے یا بعد میں جائز ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمای" بے شک نماز مومنوں پر اپنے وقت مقررہ پر فرض کی گئی ہے "
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضي الله عنه سے مروی ہے وہ رسول اللہ سے بیان کرتے ہیں کہ " آپ ﷺ کے پاس ایک شخص نمازوں کے اوقات کے متعلق سوال کرنے آیا۔آپ ﷺ نے کوئی جواب نہ دیا۔ ابو موسیٰ فرماتے ھیں کہ آپ ﷺ نے فجر کی نماز لو پھوٹتے ہی ادا کی اندھیرے کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کو نہیں پہچان سکتے تھے۔ پھر سورج ڈھلتے ہی آپ ﷺ نے ظہر کی نماز ادا کی۔ اور ایک کہنے والا کہتا ہے کہ آدھا دن ڈھل گیا تھا اور آپ ﷺ ان سے زیادہ جانتے تھے۔پھر سورج کے بلند ہوتے ہی آپ ﷺ نے مؤذن کو اذان کا حکم دیا اور عصر کی نماز ادا کی اور سورج کے غروب ہوتے ہی آپ ﷺ نے پھر مؤذن کو اذان کا حکم دیا اور مغرب کی نماز ادا کی۔سرخی کےغائب ہوتے ہی آپ ﷺ نے مؤذن کو عشاء کی اذان کا حکم دیا اور نماز ادا کی۔دوسرے دن فجر کی نماز کو اتنا لیٹ کیا کو جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو سورج نکل چکا تھا یا نکلنے کے قریب تھا اور ظہر کی نماز کو اتنا لیٹ کیا کہ پہلے دن عصر کی نماز جس وقت پڑھی تھی وہ وقت داخل ہو گیا اور عصر کی نمازکواتنا لیٹ کیاکہ جب عصر کی نماز سے فارغ ہوئے تو سورج زرد ہو چکا تھا اور مغرب کی نماز کہ اتنا لیٹ کیا کہ جب نماز سے فارغ ہوئے تو سرخی زائل ہونیوالی تھی اور عشاء کہ نماز کو رات کے پہلے حصے کے تیسرے حصے تک لیٹ کیا۔ رات گزارنے کے بعد جب صبح اٹھے تو سوال کرنے والے کو بلایا کہ وقت ان دونوں کے درمیان ہے "۔ اور ایک روایت میں ہے " کہ آپ ﷺ نے دوسرے دن سُرخی کے غائب ہونے سے پہلے مغرب کی نماز ادا کی"۔[ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]
- نماز کے اوقات یہ ہیں :
فجر کا وقت طلوع فجر سے شروع ہوتا ہے۔» وہ سفید روشنی ہے جو کہ مشرق کی طرف افق میں ہوتی ہے «سورج کے طلوع ہونے تک بڑھتا ہے۔
سورج کے ڈھلنے سے لیکر اس وقت تک جب تک ایک چیز کا سایہ اسکے مثل نہ ہو جائے۔ اس سائے کے بعد کہ جس پر سورج ڈھلا تھا۔ اسکی صورت یہ ہو گی کہ سورج جب طلوع ہوتا ہے تو آدمی کا سایہ مغرب کی طرف ہو تا ہے۔
پھر سورج کے بلند ہونے کے ساتھ ساتھ سایہ کم ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ ایک موڑ پر یہ سایہ رک جاتا ہے اور پھر دوبارہ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے تو جیسے ہی دوبارہ بڑھنا شروع ہوتا ہے یہ زوال کا وقت ہے
ظہر کے وقت کے ختم ہونے سے لیکر چیز کا سایہ دو چند ہونے تک ہے۔
سورج کے غروب ہونے سے سُرخ لکیر کے غائب ہونے تک وہ سُرخ روشنی ہے وہ جو آسمان کے افق میں ہوتی ہے سورج کے غروب ہونے کے وقت۔
مغرب کا وقت ختم ہونے سےلیکر آدھی رات تک ہے؛ آپ ﷺ کے قول کی وجہ سے " عشاء کی نماز کا وقت آدھی رات تک ہے " [اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]
اور اس زمانےمیں نماز کے اوقات کو آسانی سے کیلنڈر کے ذریعے جانا جا سکتا ہے۔
ایسے تنگ کپڑوں میں نماز پڑھنا کہ جن سے نگیج ظاہر ہوتا ہو یا انتہائی باریک کپڑوں میں نماز پڑھنا یا نگیج کے کھُلے ہونیکی حالت میں نماز پڑھنا۔ یا اس حالت میں نماز پڑھنا کہ چادر لٹکی ہوئی ہو یعنی جس وقت کپڑے ٹخنوں سے نیچے چلے جائیں۔
یا ایسے کپڑے میں نماز پڑھنا جن پر تصویر بنی ہو یا ایسی جگہ پر نماز پڑھنا جہان جاندار چیزوں کی تصاویر ہوں یا سجدہ کرنا جہاں پر تصاویر اور نقشے ہوں۔
1۔ جس نے وقت نکلنے سے پہلے ایک رکعت بھی پا لی تحقیق اس نے پوری نماز پا لی۔ آپ ﷺ کے قول کی وجہ سے " جس نے ایک رکعت پا لی تو اس نے نماز پا لی "[ یہ حدیث متفق علیہ ہے]
2۔ جب نماز نیند یا بھول کی وجہ سے فوت ہو جائے تو فوری ادا کرنا واجب ہے۔ آپ ﷺ کے قول کی وجہ سے " جو شخص نماز بھول جائے تو پس اسکو پڑھے جب یاد آ جائے اسکا کفارہ یہی ہے "۔[ یہ حدیث متفق علیہ ہے]
اور وہ وضو کے ساتھ ہوتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا!" اللہ پاک تم میں سے کسی کی بھی ناپاکی کی حالت میں نماز قبول نھیں کرتا یہاں تک کہ وہ وضو کرلے "[ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]
اور وہ غسل سے حاصل ہوتی ہے۔ اللہ عزّوجل کے قول کی وجہ سے " اگر تم ناپاک ہو تو خوب پاکی حاصل کرو "(مائدہ)
جس کو نماز میں یاد آئے کہ وہ ناپاک ہے یا نماز کے درمیان میں وضو ٹوٹ جائےتو اسکی نماز باطل ہو جائیگی۔ اور اس پر لازم ہے کہ وہ پاکی حاصل کرنے کے لیے بغیر سلام کے نماز توڑ دے۔ اس لیے کہ نماز ٹوٹی ہے پوری نہیں ہوئی۔اور سلام تو نماز کے ختم ہونے پر ہوتا ہے۔
اللہ کے قول کی وجہ سے " اپنے کپڑوں کو پاک رکھا کر "
رسول ﷺ اللہ سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ دو قبروں پر سے گزرے تو آپ ﷺ نے فرمایا " بے شک ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور یہ عذاب کسی بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں دیا جا رہا بلکہ یہ پیشاب کے قطروں سے نہ بچنے کی وجہ سے دیا جا رہا ہے "[ اس حدیث کو امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے]
اس اعرابی کی حدیث کی وجہ سے جس نے مسجد میں پیشاب کر دیا تھا آپ ﷺ نے فرمایا " چھوڑ دو تم اسکو اور اسکے بول پر ایک ڈول پانی ڈال دو " [جس پر امام بخاری اور مسلم متفق ہوں]
جس نے نماز پڑھی اور وہ نہیں جانتا کہ اس پر ناپاکی ہے یا وہ بھول گیا کہ اس پر ناپاکی ہے تو اسکی نماز صحیح ہے۔ " اس لیے کہ رسول ﷺ اللہ سے ثابت ہے کہ انہوں نے ایک دفعہ نماز پڑھتے ہوئے جوتے اتار دیے تھے۔انکی دیکھا دیکھی میں صحابہ کرام نے بھی اتار دیے تھے۔ جب رسول ﷺ اللہ کو پتہ چلا تو آپ ﷺ نے فرمایا “تم نے کیوں جوتے اتارے تو انہوں نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ ، ہم نے آپ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے اُتارے تو ہم نے بھی اُتار دیے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جبرائیل میرے پاس آیا تھا اور اُس نے مجھے خبر دی کہ آپ ﷺ کے دونوں جوتے ناپاک ہیں۔ پس جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو اپنے جوتوں کو اُلٹا کر کے دیکھ لے اگر ان میں کوئی گندگی وغیرہ دیکھے تو زمین کے ساتھ پونچھ لے پھر ان میں نماز پڑھ لے "[ اس حدیث کو امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے]
ساری زمین مسجد ہے۔ اس پر نماز پڑھنا صحیح ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا " میرے لیے ساری زمین کو مسجدبنا دیا گیا ہے۔ میری امّت میں سے جس بھی شخص پر جہاں بھی نماز کا وقت آجائے وہ وہاں نماز پڑھ لے "[جس پر امام بخاری اور مسلم متفق ہوں]
اور اس سے وہ جگہ مستثنیٰ ہے جن سے منع کیا گیا ہے مثلا قبر اور غسل خانہ میں نماز ادا کرنا۔
آپ ﷺ کے قول کی وجہ سے “زمین ساری کی ساری مسجد ہے مگر قبر اور حمام اس سے مستثنیٰ ہیں" اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ “اونٹوں کے باڑے میں نماز نہ پڑھو " [اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے]
اور” اعطان الابل” وہ جگہ ہے جہاں وہ رات گزارتا ہے اور رہتا ہے۔
مرد کا ستر:ناف سے لیکر گھٹنوں تک ہے۔
عورت کا ستر نماز میں:چہرے اور ہتھیلیوں کے سوا سارا جسم ہے۔
- دونوں کندھوں کا ڈھانپنا ...
نماز پڑھنے والے کے لیے واجب ہے کہ کہنیوں اور گردن کے درمیان والی جگہ کو ڈھانپ لے۔ آپ ﷺ نے فرمای" آپ میں سے کوئی بھی ایک کپڑے میں جس کے ذریعے کندھوں کو نہ ڈھانپا جا سکتا ہو نماز نہ پڑھے "[ یہ حدیث متفق علیہ ہے]
اور قبلہ خانہ کعبہ ہے۔
اللہ عزّوجل نے فرمای" اور اپنے چہرے کو مسجد حرام کی طرف پھیر لو "
اور بعض کاموں کی رعایت رکھنا ضروری ہے۔
1۔ جو شخص مسجد حرام میں نماز پڑھے اس پر واجب ہے کہ وہ عین کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھے۔ بہرحال جو کعبہ سے دور ہو تو وہ اسکی جہت کیطرف منہ کر کے پڑھے۔
کیونکہ وہ عین کعبہ کی طرف متوجہ ہونے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اسی وجہ سے نبی ﷺ نے فرمای" جو مشرق اور مغرب کے درمیان ہے وہ قبلہ ہے" [اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے]
2۔ سوار کی نفل نماز: سوار نماز شروع کرنے سے پہلے اپنی طاقت کے مطابق کعبہ کے بارے میں غورو خوض کرے۔
اگر پھر بھی اسے کعبہ کی جہت معلوم نہیں ہوتی تو اس کی سواری جس طرف متوجہ ہو اس طرف نماز پڑھ لے اور یہی رسول ﷺ اللہ سے ثابت ہے۔" بے شک نبی ﷺ اپنی سواری پر نماز پڑھتے تھے جس طرف وہ منہ کرتی تھی اور وتر پڑھتے تھے لیکن فرض نماز نہیں پڑھتے تھے "[ اس حدیث کو امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے]
- جو قبلہ نہ جانتا ہو۔؟
‹جو شخص قبلہ رخ نہیں جانتا اگر وہ آبادی میں ہے یا لوگ اسکے قریب ہیں تو ان سے مسجدوں کے محرابوں کے بارے کے بارے میں یا قبلہ معلوم کرنے والے آلہ کے بارے اور سورج اور چاند کے نکلنے کے اطراف کے بارے میں اور جو چیزیں ان کے مشابہ ہیں ان کے بارے میں پوچھ لے اور اگر پھر بھی پتہ نہ چلے تو اس طرف نماز پڑھ لے۔
اللہ عزّوجل فرماتے ہیں " جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرے رہو "