نماز کی آڑ/رکاوٹ
سترہ اس چیز کو کہتے ہیں جسکو نمازی اپنے اور گزرنے والے کے درمیان رکھتا ہے۔
نماز کی آڑ/رکاوٹ
سترہ اس چیز کو کہتے ہیں جسکو نمازی اپنے اور گزرنے والے کے درمیان رکھتا ہے۔
فرض اور نفل میں خواہ مسجد ہو یا نہ ہو رکاوٹ بنانا حضر اور سفر میں مشروع ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا "جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اپنے سترے کی طرف نماز پڑھے اور اسکے قریب ہو"[ اس حدیث کو امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے]
حضرت وھب رضي الله عنه فرماتے ہیں" آپ ﷺ نے منیٰ میں ہماری امامت کی۔ آپ ﷺ کے سامنے ایک چھوٹی لکڑی گاڑھی گئی اور آپ ﷺ نے ہمیں دو رکعتیں پڑھائیں"۔[ اس حدیث کو امام احمدنے روایت کیا ہے]
کسی چیز کو آڑ بنانا واجب ہے۔ آپ ﷺ نے آڑ بنانے کا امام اور اکیلے کو حکم دیا ہے۔ اور اس میں رغبت کااظہار فرمایا کہ ایک مسلمان کےلیے یہ مناسب ہے کہ وہ نماز کے وقت اپنے سامنے سترہ رکھ لے اور گذرنے والا اسکے اور اسکے سترے کے درمیان گذرنے سے روکا جائے گا۔
رسول ﷺ اللہ فرماتے ہیں "تو سترے کی طرف ہی نماز پڑھ اور کسی کو اپنے سامنے سے نہ گذرنے دے اگر وہ انکار کرے تو اسکو مارو"[ اس حدیث کو امام ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے]
بہت سی حکمتوں کی وجہ سے نمازی کے لیے سترہ مشروع کیا گیا ہے۔
1۔ خشوع و خضوع کے ٹوٹنے کے خطرے کی وجہ سے اسکے سامنے سے گذرنے والے کو روکنا۔
2۔ نماز میں نمازی کے افکار کو محصور کرنا اور کسی اور چیز میں مشغولیت سے روکنا۔
3۔ عورت، کتا یا گدھے کے گذرنے کے ساتھ نماز کے ٹوٹنے کے خوف سے بچنے کے لیے۔
حدیث ابوذر رضي الله عنه کی وجہ سے، فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا "جب تم میں سے کوئی نماز کے لیے کھڑا ہو تو اپنے سامنے کجاوے کی آخری لکڑی کے مثل سترا بنا لے۔اور اگر اسکے سامنے کجاوے کی آخری لکڑی کے برابر سترہ نہ ہو تو اسکی نماز کو گدھا، عورت اور سیاہ کتا توڑ دیتا ہے" میں نے کہا اے ابوذر کالے کتے کو سیاہ یا زرد کتے پر کیوں ترجیح دی۔فرمایا اے بھتیجے میں نے بھی یہی سوال آپ ﷺ سے کیا تھا جیسے تو نے مجھ سے کیا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا "کالا کتا شیطان ہے"[ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]
1۔ سترہ رکھنا امام اور مقتدی دونوں کے لیےضروری ہے۔
اور امام کا سترہ مقتدی کا سترہ ہوتا ہے۔ ابن عباس رضي الله عنه سے مروی ہے فرماتے ہیں "میں گدھی پر سوار ہو کر آیا اور میں اس وقت بالغ ہونے کے قریب تھا اور رسول ﷺ اللہ اس دن منی میں نماز پڑھا رہے تھے تو میں نماز پڑھنے والوں کی صف کے سامنے سے گذرا۔ میں اترا اور اونٹنی کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ [الاتان: گدھی کو کہتے ہیں] میں صف میں داخل ہو گیا اور کسی نے بھی اس پر اعتراض نہیں کی"۔ [یہ حدیث متفق علیہ ہے]
2۔ نمازی کے سامنے سے گذرنا جائز نہیں ہے اور گذرنے والا گنہگار ہو گا۔ رسول ﷺ اللہ نے فرمای"اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والا جان لے کہ اسکے لیے کیا وبال ہو گا تو چالیس روز ٹھہرنے کو آگے گزرنے پر ترجیح دے گا "۔ [یہ حدیث متفق علیہ ہے]
ابو النصر کہتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں کہ آپ ﷺ نے چالیس دن، مہینے یا سال کہا۔ ہاں اگر سترے کے پیچھے سے گزر جائے یا نمازی کے سجدے والی جگہ سے دور گزرے اگر نمازی نے سترنہ بنایا ہوا ہو۔
3۔ نمازی پر لازم ہے کہ اپنے سامنے سے گزرنے والے کو روکے۔ حضرت ابو سعید خدری رضي الله عنه سے روایت ہے فرماتے ہیں میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا کہ "جب تم میں سے کوئی کسی چیز کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے تو اسکو سترہ بنا لے اگر اسکو کوئی پار کرنا چاہے تو اسکو دور کر دے اگر انکار کرے تو اسکو مارے بے شک وہ شیطان ہے۔"[ یہ حدیث متفق علیہ ہے]
4۔ اہل علم کی ایک جماعت نے مسجد حرام کو مستثنیٰ قرار دیا ہے۔اور انہوں نے لوگوں کے مشقّت کو مدّنظر رکھتے ہوئے مسجد حرام میں نمازی کے سامنے گذرنے کی اجازت دی ہے۔ اس لیے کہ مسجد حرام میں نمازی کے سامنے سے گزرنے والے کو روکنے میں حرج ہے۔
5۔ دیوار، مسجد کے ستونوں میں سے کوئی ستون یا الماری کے ساتھ بھی نماز کے لیے سترہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یا لاٹھی جیسی کوئی چیز اپنے سامنے رکھ کے نماز پڑھ لے۔
6۔ نمازی اور سترے کے درمیان ایک بکری کے گزرنے جتنا فاصلہ ہونا چاہیے کیونکہ حضرت سہل رضي الله عنه فرماتے ہیں "آپ ﷺ کےنماز پڑھنے کی جگہ اور دیوار کے درمیان ایک بکری کے گذرنے جتنا فاصلہ ہوتا تھ"[ یہ حدیث متفق علیہ ہے]
(یقطع الصلاۃ) والی حدیث میں عورت کو گدھے اور کالے کتے کے ساتھ تشبیہ دینا مقصود نہیں ہے اور نہ ہی ایک سیاق میں ذکر کرنے کی وجہ سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ یہ تینوں چیزیں نماز کے توڑنے کی علت میں شریک ہیں بلکہ ان میں سے ہر ایک نماز کے توڑنے کی علت اور سبب میں مستقل ہے مثلاً کالے کتے کی علت اور سبب پر رسول ﷺ اللہ نے تصریح کر دی ہےکہ اس سے نماز اس لیے ٹوٹ جاتی ہے کہ یہ شیطان ہے۔
اسکا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ گدھا اور عورت بھی شیطان ہیں۔ بلکہ عورت کی وجہ سے نماز اس لیے ٹوٹ جاتی ہے کہ جب عورت نمازی کے سامنے سے گذرتی ہے تو اسکی توجہ اپنی طرف مبذول کرا لیتی ہے۔ اور نمازی کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں عورت مرد سے زیادہ تیز ہے تو اس سے نماز کی خشوع خراب ہو جاتی ہے۔ تو شارع نے نمازی کی خشوع و خضوع برقرار رکھنے کے لیے عورت کے گذرنے کو قاطع صلوٰۃ قرار دیا ہے۔