سہو کے سجدے
سہو کے دو سجدے ہیں جو نمازی نماز میں واقع ہونیوالے خلل کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ادا کرتا ہے۔
سہو کے سجدے
سہو کے دو سجدے ہیں جو نمازی نماز میں واقع ہونیوالے خلل کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ادا کرتا ہے۔
سجدہ سہو کے تین اسباب ہیں: شک اور زیادتی اور نقصان
شک
انسان کا دو کاموں میں تردّد میں پڑ جانا کہ کونسا کام ہوا ہے اور کونسا نہیں اس کو شک کہتے ہیں۔
اور شک نمار کے اعتبار سے دو قسم کا ہے۔
اور یہ وہ شک ہے جسکا کوئی اعتبار نہیں۔
اسکی مثال: ایک آدمی کو فجر کی نماز کے بعد شک ہوا کہ اس نے دو رکعتیں پڑھیں یا تین؟ تو اس شک کی طرف توجّہ نہ کرے البتہ اگر اسے یقین ہو جائے کہ اس نے کم یا زیادہ پڑھی ہیں تو یقین پر عمل کرے۔
اور اس شک کی دو صورتیں ہیں۔
ا۔ پہلی صورت یہ ہے کہ دونوں کاموں یا گمانوں میں سے کسی ایک کو ترجیح دے۔
اور اس صورت میں جو اسکے ہاں راحج ہے اس پر عمل کرے۔ اور سلام کے بعد سجدہ سہو کرے۔
اسکی مثال: ایک آدمی کو ظہر کی نماز میں شک ہو گیا کہ یہ اسکی دوسری رکعت ہے یا تیسری لیکن غالب گماں اسکا یہ ہے کہ یہ تیسری رکعت ہے تو اسکو تیسری بنائے اور نماز پوری کرے۔ پھر سلام کے بعد سجدہ سہو کرےاور اس پر دلیل آپ ﷺ کا قول ہے "جب تم میں سے کسی کو نماز میں شک ہو تو درستی کے لیے غورو خوض کرے اور سلام پھیرنے کے بعد سہو کے دو سجدے کرے"[ رواہ ابن حبان]
ب۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اسکا گمان دونوں چیزوں پر برابر ہو اور غالب گمان کسی ایک پر بھی نہ ہو۔
تو اس صورت میں کم پر بناء کرے اور نماز پوری کرنے کے بعد سلام پھیرنے سے پہلےسجدہ سہو کر لے۔
اسکی مثال: ایک آدمی کو طہر کی نماز میں شک ہوا کہ وہ تیسری میں ہے یا دوسری میں اور کسی کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ توکم پر بناء کرتے ہوئے دو کا اعتبار کرے اور نماز پوری کرے اور سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے۔ اور دلیل اس پر آپ ﷺ کا قول ہے "جب تم میں سے کسی کو شک ہو جائے کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھیں تین یا چار؟ تو شک کو پھینک دے اور یقین پر بناء کرے پھر سلام سے پہلے دو سجدے کرے"[ اس کے امام مسلم نے روایت کیا ہے]
اسکی صورت یہ ہے کہ نمازی اپنی نماز میں رکوع یا سجدے کی زیادتی کر دے اور زیادتی کی دو صورتیں ہیں۔
تو اس صورت میں اس پر واپس لوٹنا واجب ہے اور اپنی نماز پوری کرے اور سلام پھیرنے کے بعد سجدہ سہو کرے۔
اسکی مثال ہے: ایک آدمی ظہر کی نماز پڑھتا ہے اور پانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے۔ پھر دوران رکعت اسکو یاد آ جاتا ہے تو اس پر فوراً بیٹھنا واجب ہے۔اور اپنی نماز کو پورا کرے اور سلام کے بعد سجدہ سہو کر لے۔
اس صورت میں بھی نماز کو پورا کرے اور سلام پھیرنے کے بعد سجدہ سہو کرے۔ اور اسکی دلیل حدیث ابن مسعود ہے۔ " ایک دفعہ رسول ﷺ اللہ نے ظہر کی نماز پڑھاتے ہوئے پانچ رکعتیں پڑھائیں۔ تو آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کیا نماز میں زیادتی ہو گئی ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کیا ہوا؟ تو صحابی نے عرض کیا کہ آپ ﷺ نے پانچ رکعتیں ادا کیں۔ تو آپ ﷺ نے سلام کے بعد دو سجدے کیے۔ "[ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]
وہ یہ کہ نمازی نماز کے ارکان یا واجبات میں سے کسی رکن یا واجب کو کم کر دے۔
اگر یہ رکن تکبیر تحریمہ ہے تو اسکے چھوڑنے کی وجہ سے نماز اس لیے باطل ہے کہ نماز سرے سے منعقد ہوئی ہی نہیں ہے۔ اور اگر رکن تکبیر تحریمہ کے علاوہ ہو تو اسکی دو صورتیں ہیں۔
ا۔ پہلی صورت یہ ہے کہ نمازی کو غلطی یا بھول دوسری رکعت میں متعلقہ رکن جس کو وہ بھولا تھا، تک پہنچنے کے بعد یاد آجائے ۔
تو اس صورت میں وہ رکعت جس میں رکن چھوٹ گیا تھا لغو اور ضائع ہو جائیگی اور آنے والی رکعت اسکے قائم مقام ہو جائیگی۔
اسکی مثال: ایک آدمی رکوع کو پہلی رکعت میں بھول گیا پھر دوسری رکعت میں جب وہ رکوع میں پہنچا تو اس یاد آ گیا کہ اس نے پہلی رکعت میں رکوع چھوڑ دیا تھا تو یہ رکعت پہلی رکعت شمار ہو گی۔
اور پہلی رکعت شمار نہیں ہو گی۔ اور اپنی نماز کو پورا کرے پھر سلام کے بعد سجدہ سہو کرے۔
ب۔ دوسری صورت یہ ہے کہ نمازی کو غلطی یا بھول دوسری رکعت میں متعلقہ رکن (جس کو وہ بھولا تھا) تک پہنچنے سے پہلے اسکو یاد آ جائے۔
اس صورت میں اس پر واجب ہے کہ وہ چھوڑے ہوئے رکن کی طرف لوٹے۔ اسکو اور بعد والے ارکان ادا کرتے ہوئے نماز پوری کرے اور آخر میں سلام کے بعد سجدہ سہو کرے۔
اسکی مثال: ایک آدمی دوسرا سجدہ کرے اور اس سے پہلے بیٹھنا پہلی رکعت میں بھول گیا۔ پھر دوسری رکعت میں رکوع سے اٹھتے ہوئے اسکو یاد آیا۔ پس لوٹ آئے اور بیٹھے اور سجدہ کرے۔ پھر اپنی نماز کو پورا کرے اور سلام کے بعد سجدہ سہو کرے۔
جب نمازی نماز کے واجبات میں سے کسی واجب کو بھول جائے اسکی تین صورتیں ہیں۔
ا۔ پہلی صورت یہ ہے کہ اسکو وہ واجب عمل (جس کو وہ بھولا تھا) نماز میں اسکی جگہ چھوڑنے سے پہلے یاد آ جائے۔
اس صورت میں جیسے ہی وہ عمل اسے یاد آئے اسکو ادا کرے اور اس پر کچھ بھی نہیں ہے۔
ب۔ اسکو یاد آئے نماز کے اپنی جگہ سے جُدا ہونیکے بعد پہلے اسکے کہ وہ اس رکن تک پہنچے جو اسکے متصل ہے۔
اس صورت میں وہ دوبارہ اسکی طرف لوٹے اور اسکو ادا پھر اپنی نماز کو پورا کرے اور سلام کےبعد دسجدہ سہو کرے۔
ج۔تیسری صورت یہ ہے کہ نمازی کو وہ واجب عمل (جس کو وہ بھولا تھا) ساتھ والے رکن تک پہنچنے کے بعد یاد آئے۔
ایسی صورت میں وہ اپنی نماز جاری رکھے اور نہ لوٹے اور سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے۔
اسکی مثال: ایک آدمی دوسری رکعت میں دوسرے سجدے سے تیسری رکعت کے لیے اٹھا اور تشہد کو بھول گیا۔اور اٹھنے سے پہلے اسکو یاد آیا کہ وہ تشہد بھول گیا ہے، پس وہ بیٹھا رہے اور تشہد پڑھے اور پھر اپنی نماز کو پورا کرے اور اس پر کوئی چیز نہیں ہے۔
پس اگر مکمل کھڑا ہونے سے پہلے اسکو یاد آیا تو واپس لوٹے،بیٹھے اور تشھد پڑھے۔ اور نماز کو پورا کرے۔ اور سلام کے بعد سجدہ سہو کرے۔
اور اگر اسکو مکمل کھڑا ہونیکے بعد یاد آیا تو اس سے تشہد ساقط ہو جائیگی۔ اور وہ اسکی طرف نہ لوٹے۔ اور اپنی نماز کو پورا کرے۔ اور سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے۔
اور دلیل اس پر حدیث عبداللہ بن بحینۃ رضي الله عنهہے کہ " نبی ﷺ نے انکو ظہر کی نماز پڑھائی تو پہلی دو رکعتوں کے بعد بیٹھنے کی بجائے کھڑے ہوگئے تو لوگ بھی آپ ﷺ کے ساتھ کھڑے ہو گئے یہاں تک جب نماز پوری ہو گئی اور لوگ آپ ﷺ کے سلام پھیرنے کا انتظار کرنےلگے تو تکبیر کہی حالانکہ آپ ﷺ بیٹھے ہوئے تھے دو سجدے کیے سلام سے پہلے، پھر سلام پھیر "[ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]
جو پیچھے گذرا ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سجدہ سہو سلام سے پہلے بھی جائز ہےاور بعد میں بھی جائز ہے۔
جس طرح باقی سجدوں میں تکبیر کے ساتھ جایا جاتا ہے اور تکبیر ہی کے ذریعے اٹھا جاتا ہے اور جو سجدوں کے درمیان کہا جاتا ہے ان تمام چیزوں میں سجدہ سہو باقی سجدوں کی طرح ہے۔
1۔ اگر نمازی سلام پھیرے نماز پوری کرنے سے پہلے اور اسکو کافی دیر کے بعد یاد آیا تو نئے سرے سے نماز پڑھے یعنی نماز کو واپس لوٹ آئے۔ اگر اسکو تھوڑی دیر کے بعددو یا تین منٹ کے بعد یاد آیا تو وہ اپنی نماز کو پوراکرے اور نماز کے بعد سجدہ سہو کرے۔
2۔ مقتدی پر امام کی پیروی کرنا ضروری ہے۔ اگرچہ وہ امام کے ساتھ غلطی کے واقع ہونے کے بعد ملا ہو۔
3۔ اگر نمازی پر دو سہو جمع ہو جائیں ان دونوں میں سے ایک کی جگہ سلام سے پہلے ہے اور دوسرے کی جگہ سلام کےبعد ہے تو سلام سے پہلے ایک دفع سجدہ سہو کرے۔
شکر کے سجدے
سجدے کسی نعمت کے حصول یا کسی معاملے کے جاری رہنے یا کسی ناپسندیدہ چیز کے دور ہونے پر اللہ کا شکر ادا کرنا ہے۔
شکر کے سجدے کے مشروع ہونیکی دلیل: حدیث ابی بکرۃ رضي الله عنه ہے " کہ نبی ﷺ کے پاس جب کوئی خوشی کی خبر آتی یا کسی چیز کے ساتھ انکو خوشخبری دی جاتی تو آپ ﷺ اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے سجدے میں گر پڑتے۔ "[ امام ابو داؤد نے اس کو روایت کیا ہے]
سجدہ شکر کے لیے وضو شرط نہیں ہے۔سجدہ کرتے ہوئے تکبیر کہے اور" سبحان ربي الأعلى " کہے اور اللہ کی تعریف اور اسکی دی ہوئی نعمت پرشکر ادا کرے۔ پھر سجدے سے کھڑا ہو اور تکبیر نہ کہے اور نہ ہی سلام پھیرے۔
سجدہ تلاوت
یہ وہ سجدہ ہے جو تلاوت کرنے والا سجدہ تلاوت کرنے کے بعد ادا کرتا ہے۔
اور اسکی مشروعیت کی دلیل ابن عمر رضي الله عنه کی روایت ہے۔ فرماتے ہیں " جب نبی ﷺ پاک ہم پر سجدہ تلاوت والی سورۃ یا آیت پڑھتے تو خود بھی سجدہ کرتے اورہم بھی سجدہ کرتے۔ "[ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]
سجدہ تلاوت والی آیت پڑھنے کی وجہ سے یہ سجدہ واجب ہو جاتا ہے چاہذے یہ آیت پڑھنے والا اسکو نماز میں پڑھے (نماز سری ہو یا جھری) یا اسکو نماز سے باہر پڑھے اور اس سجدہ یعنی سجدہ تلاوت کے لیے وضو شرط نہیں ہے۔
قرآن پڑھنے والا یا سننے والا جب سجدہ تلاوت کو پڑھ لے یا سن لے تو تکبیر کہ کر سجدہ میں چلا جائے اور اللہ سے یہ کہتے ہوئے دعا کرے " سبحان ربي الأعلى " اور دعا کرے ان الفاظ کے ساتھ: "سجد وجهي للذي خلقه، وشق سمعه وبصره بحوله وقوته"۔[ امام ترمذی نے اس کو روایت کیا ہے]
-" اللهم اكتب لي بها عندك أجرًا، وضع عني بها وزرًا، واجعلها لي عندك ذُخرًا، وتقبلها مني كما تقبلتها من عبدك داود "[امام ترمذی نے اس کو روایت کیا ہے]
پھر تکبیر کہتے ہوئے سجدہ سے اٹھ کھڑا ہو اگر وہ نماز میں ہو۔ اور اگر نماز میں نہیں ہے تو بغیر تکبیر اور سلام پھیرے اٹھ کھڑا ہو۔
تلاوت کے سجدوں پر مشتمل ایات:
سورة الرعد آية نمبر: (15) | سورة الأعراف آية نمبر: (206) |
سورة الإسراء آية نمبر: (107) | سورة النحل آية نمبر: (49) |
سورة الحج آية نمبر: (18) | سورة مريم آية نمبر: (58) |
سورة الفرقان آية نمبر: (60) | سورة الحج آية نمبر: (77) |
سورة السجدة آية نمبر: (15) | سورة النمل آية نمبر: (25) |
سورة فصلت آية نمبر: (37) | سورة ص آية نمبر: (24) |
سورة الانشقاق آية نمبر: (21) | سورة النجم آية نمبر: (62) |
سورة العلق آية نمبر: (19) |
1۔ مسافر جب سواری پر سجدہ والی آیت پڑھے تو اپنی سواری سے اترجائے اور تلاوت کا سجدہ اداکرے۔ اگر اترنا آسان نہ ہو تو سر کے ساتھ سجدے کا اشارہ کرے۔
2۔ جب قاری سجدہ تلاوت کی ایک آیت کوبار بار پڑھے تو ان سب کے لیے ایک سجدہ تلاوت کی ادائیگی کافی ہو گی۔
3۔ جن وقتوں میں نماز پڑھنے سے روکا گیا ہے ان وقتوں میں سجدہ تلاوت ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
4۔ جب قاری سجدہ نہ کرے تو سننے والا بھی نہ کرے۔ اس لیے وہ تلاوت میں اسکے تابع ہے۔
5۔ قاری کو بغیر ارادے کے سننے والا، گویا کہ وہ وہاں سے گذر رہا تھا یا کسی اور چیز میں مشغول تھا تو سجدہ تلاوت میں قاری کی پیروی نہ کرے کیونکہ اس نے تلاوت میں اسکی اقتداء نہیں کی۔