شریعت نے مردوں کو نماز جماعت ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور با جماعت نماز نہ پڑھنے سے روکا ہے۔نماز جماعت کی قدرت رکھنے والے مردوں کو شرعی حکم دیا گیا ہے اور اسکو چھوڑنا منع ہے۔
آپ ﷺ نے ان لوگوں کو کوجلانے کا ارادہ کیا جو نماز جماعت میں حاضر نہ ہوے تھے۔
1- اور اللہ عزّوجل خوف کی نماز کے بارے میں فرماتے ہیں "جب تم ان میں ہو اور ان کے لیے نماز کھڑی کرو تو چاہیے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ اپنے ہتھیار لیے کھڑی ہو، پھر جب یہ سجدہ کر چکیں تو یہ ہٹ کر تمہارے پیچھے آ جائیں اور وہ دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پرھی وہ آ جائے اور تیرے ساتھ نماز ادا کرے۔"
جب اللہ تعالیٰ نے خوف اور سفر کی حالت میں نماز جماعت پڑھنے کا حکم دیا ہے تو امن اور غیر سفر یعنی گھر میں مقیم ہونے کی صورت میں تو ہر صورت میں نماز جماعت پڑھنی چاہیے۔
2۔ حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہے فرماتے ہیں کہ رسول ﷺ اللہ نے فرمایا "بے شک منافقین پر زیادہ بوجھ والی نماز عشاء کی اور فجر کی ہے۔ اگر وہ انکے اجر کو جان لیں تو انکی طرف گھٹنوں کے بل رینگتے ہوئے چلے آئیں” میں نے ارادہ کیا کہ میں نماز کا حکم دوں وہ کھڑی کر دی جائے پھر کسی آدمی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے۔ میں چلوں اور میرے ساتھ ایسے آدمی ہوں کہ انکے پاس لکڑیوں کا گٹھا ہو۔ ایسی قوم کی طرف جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے تو انکے گھروں کو آگ لگا کر جلا دوں۔"[ یہ حدیث متفق علیہ ہے]
اور نبی اکرم ﷺ نے نماز جماعت نہ پڑھنے والوں کے گھروں کو جلانے کا ارادہ اس لیے کیا کہ با جماعت نماز پڑھنا واجب ہے۔ اور باجماعت نماز نہ پڑھنے والوں کو منافق اس لیے کہا گیا کہ نماز جماعت پڑھنا واجب ہے
3۔ حدیث اعمی بھی نماز جماعت کے وجوب پر دلیل ہے کہ جب اس نے نبی اکرم ﷺ سے اپنے گھر میں نماز ادا کرنے کی اجازت طلب کی اس لیے کہ اسکو کوئی لانے والا نہیں ہے۔
تو اسکو نبی اکرم ﷺ نے فرمای"کیا آپ اذان کی آواز سن سکتے ہو؟ اس نے کہا جی ہاں! تو آپ ﷺ نے فرمایا تو پھر جواب بھی دو"[ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]
4۔ وہ جو ابن مسعود رضي الله عنهسے ثابت ہے، "جو شخص یہ چاہتاہے کہ وہ کل اللہ سے اسلام کی حالت میں ملے تو وہ نمازوں کی حفاظت کرے جب اسے ان کی طرف بلایا جائے۔ بےشک اللہ نے تمہارے نبی ﷺ کے لیے ہدایت کے راستوں کو شریعت بنایا ہے۔ اور یہی نمازیں ہدایت کا راستہ بھی ہیں اور شریعت بھی ہیں۔ اور اگر تم نے اپنے گھروں میں نماز ادا کرنا شروع کر دی جیسا کہ نماز سے پیچھے رہ جانیوالا اپنے گھر میں نماز ادا کرتا ہے تو تم نےاپنے نبی ﷺ کی سنّت کو چھوڑ دیا ۔ اگر تم نےنبی ﷺ کی سنّت کو چھوڑ دیا تو تم گمراہ ہو گئے۔ جو شخص اچھے طریقے سے پاکی حاصل کرے اور پھر مسجدوں میں سے کسی ایک مسجد کی طرف چل پڑے تو اللہ تعالیٰ اس کو ہر قدم پر ایک نیکی سے نوازتا ہے اور ایک درجہ بلندی دیتا ہے اور ایک برائی مٹاتا ہے اور منافق کے علاوہ کوئی بھی آدمی باجماعت نماز میں سستی نہیں کرتا اور ہم ایک آدمی کو دو آدمیوں پر سہارا کیے ہوئے جماعت کی نماز میں شریک ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ "[اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]
1۔ با جماعت نماز کی ایک حکمت یہ ہے کہ اس سے اللہ کے لیے بھائیوں اور دوستوں کا اپس میں تعارف اور جان پہچان ہوتی ہے اور محبت کے رشتے مزید مضبوط ہوتے ہیں۔ اور اللہ کے لیے ایک دوسرے سے محبت کے بغیر ایمان کا برقرار رہنا آسان نہیں ہے کیونکہ محبت ہی ایمان اور جنت کے حصول کا واحد راستہ ہے۔
2۔ نماز جماعت کی دوسری حکمت اور فضیلت یہ ہے کہ جو آدمی مسلسل چالیس دن تک تکبیر تحریمہ کے ساتھ باجماعت نماز پڑھے گا تو اللہ اسکو نفاق اور جہنم کی آگ سے بری اور آزاد کر دیتے ہیںَ۔
حضرت انس کی روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا " کہ جس نے 40 دن جماعت کے ساتھ تکبیر تحریمہ کے ساتھ نماز پڑھی تو اسکے لیے دو براتیں لکھی جاتی ہیں۔ ایک جہنّم سے آزادی اور دوسری نفاق سے خلاصی۔"[ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے]
3۔ تیسری حکمت یہ ہے کہ اس سے مسلمانوں کی اجتماعیت اور انکا خیر اور اصلاح کی طرف میلان کا ظہور ہونا ہے۔
4۔ چوتھی حکمت یہ ہے کہ اس کی وجہ سے مسلمان اپس میں ایک دوسرے کی کفالت اور باہمی تعاون کرتے ہیں۔
5۔ پانچویں حکمت یہ ہے کہ اس سے شعائر دین اور دین کی قوّت کا اظہار ہوتا ہے۔
6۔ چھٹی حکمت یہ ہے کہ جب ایک ہی مسجد میں ایک ہی صف میں ایک ہی امام کے پیچھے اور ایک ہی وقت میں سیاہ و سفید، عربی و عجمی، چھوٹے اور بڑے، امیر اور غریب مل کر کھڑے ہوتے ہیں تو ان کے دل آپس میں مل جاتے ہیںَ۔
7۔ ساتویں حکمت یہ ہے کہ اس سے اللہ کے دشمنوں کو سخت غصہ آتا ہے کیونکہ جب تک مسلمان نماز کی حفاظت کرتے رہیں گے اس وقت تک وہ طاقتور رہیں گے۔
8۔ گناہوں کا مٹنا اور درجات کا بلند ہونا۔ حضرت ابو ہریرہ رضي الله عنهسے مروی ہے کہ رسول ﷺ اللہ نے فرمایا " کیا میں تمہاری ایسی چیز کی طرف رہنمائی نہ کر دوں کہ اللہ اس کے ذریعے گناہوں کو مٹا دے اور درجات کو بلند کردے۔ انہوں نے کہا کیوں نہیں یا رسول ﷺ اللہ! فرمایا مشقّت کے باوجود مکمل وضو کرنا اور ایک نماز کےبعد دوسری کا انتظار کرنا اور مسجد کے دور ہونے کے باوجود مسجد میں ہی نماز پڑھنا۔ پس یہ تمہارے لیے نفس کو اللہ کی عبادت پر مجبور کرنا ہے۔ "[اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]
9۔ نماز جماعت اکیلے کی نمازسے27 درجے افضل ہے۔ حضرت ابن عمر رضي الله عنهسے مروی ہے کہ رسول ﷺ اللہ نے فرمایا"جماعت کی نماز اکیلے کی نماز سے 27 درجے زیادہ فضیلت والی ہے"[ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیاہے]
کسی ایک کے لیے یا جماعت کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ مسجد قریب ہونیکے باوجود گھر میں نماز ادا کرے۔ ہاں اگر مسجد دور ہو اور وہ اذان نہیں سن سکتے تو پھر کوئی حرج نہیں ہے۔